تحریر : سید انور محمود آج سترہ دسمبر ہے اور پشاور میں دہشتگردی کے واقعے کوآج صرف ایک روز ہوا ہے، ملک بھرمیں تین روز کا سوگ منایا جارہا ہے، صرف پشاور میں ہی نہیں ہر جگہ ہر پاکستانی غمزدہ ہے، ہر آنکھ اشک بار ہے، آج کسی نے بھی ہڑتال کا نہیں کہا ہے، لیکن پورے پاکستان میں تقریبا کاروبار بند رہا، خاصکر مرکزی بازار تو مکمل شٹ ڈاون رہے، یہ وہ ہی تاجر برادری ہے جو ہڑتال کی کال دینے والے کو کوستے ہیں لیکن آج پشاور سے کراچی تک ہر پاکستانی کی طرح ہر تاجر کی آنکھ اپنے 148 پیاروں کی شہادت پر اشکبار ہے، ان 148 میں ہمارے 132 بچے بھی شامل ہیں، لہذا ٓج یوم سوگ ہے کاروبار بند ہے، دوسرے شعبوں کی طرح اسٹاک مارکیٹ بھی اپنے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے بند کردی گی۔ پھول جیسے بچوں کو سفاک دہشت گردوں نے خون میں نہلادیا،اُن کے والدین دکھ سے نڈھال ہیں۔
پشاور اسکول سانحہ نے ہر آنکھ اشکبارکردی۔کئی خواب بکھرگئے، بدترین واقعے نے پوری قوم کوسوگوارکردیاہے۔ کوئی ڈاکٹربننا چاہتاتھاتوکوئی انجینئر،کوئی فوج میں جا کر ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتا تھا توکوئی وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتاتھا۔ یہی وہ معصوم خواب تھے جوقوم کے معمارہرصبح اپنی آنکھوں میں سجائے اسکول کارخ کیاکرتے تھے،لیکن دہشتگردوں نے تواس درس گاہ پر ہی حملہ کردیا۔ ایک نسل کوہی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان معصوموں کا قصورکیاتھا؟کتنی ہی ماؤں کی گودیں اجڑگئیں۔با پ کے خواب چھلنی ہوگئے۔بہن بھائیوں سے ان کے سہارے چھین لئے گئے۔ شاید ہی کوئی سوچ سکتاتھاکہ دشمن ایسا گھٹیا وار بھی کرسکتاہے۔ جنگ میں بھی بچوں اورخواتین کو نشانہ نہیں بنایاجاتا، یہ تو پھر بھی وطن عزیز ہے، اپنی درس گاہ اوراپنے پھول سےبچےجو اسی درس گاہ میں دن کا آغازاللہ تعالی کے پاک نام سے کرتے تھے، جہاں انسانیت کا درس دیا جاتاہے، جہاں جہالت کا اندھیرا دورکرنے کا پیغام دیاجاتاہےلیکن ان دہشتگردوں نے توعلم کی شمع ہی گل کردی۔
دہشت گردوں نے پھولوں کے شہر پشاور میں 321 ماؤں سے ان کے پھول چھین لیے، اپنے لخت جگر کو علم حاصل کرنے کے لیے بھیجنے والی ماؤں کو کیا خبر تھی کہ آج کے بعد وہ اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیے ترس جائیں گی،پوری قوم ان کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔ان بچوں میں بہت سے بچے کرکٹ کے دیوانے بھی ہونگے، ان میں کئی ایسے بھی ہونگے جو خود کرکٹر بننا چاہتے ہونگے۔ آجکل ابوظبی میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ون ڈئے سیریز چل رہی ہے، پاکستان نے تیسرے ون ڈے میچ میں نیوزی لینڈ کو 147 رنز سے شکست دیکر پانچ میچوں کی سیریز میں 1-2 کی برتری حاصل کر لی تھی اور یقینا ان شہید 132 بچوں میں سے بہت سے بچوں نے تیسرا ون ڈئے دیکھا ہوگا اور اپنے امی ابوسے کہا ہوگا کہ بس اگلا میچ جیت جایں تو ہم سیریز جیت جاینگے، افسوس اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں چوتھا میچ ہورہا، مجھے نہیں معلوم کہ میچ کی کیا پوزیشن ہے لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے پشاورکےآرمی پبلک اسکول کے شہید 132 بچے یہ میچ نہیں دیکھ رہے ہیں، وہ تو ہمیں چھوڑکر تتلیوں اور جگنوں کے دیس چلے گے۔ اُن شہید بچوں کے اپنے والدین اور ہم سے بچھڑنے پرآج پورا پاکستان یوم سوگ منارہا ہے اور میرئے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال ابھر رہا ہے کہ” کیا آج ہمیں نیوزی لینڈ کے ساتھ چوتھا میچ کھیلنا چاہیے تھا؟”۔
Younis Khan
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے اسٹار بیٹسمین یونس خان نے سانحہ پشاور کے سوگ میں آج پاک نیوزی لینڈ میچ ملتوی کرنے مطالبہ کیا تھا، یونس خان کا کہنا تھا کہ پشاور سانحہ کے بعد کھلاڑیوں کا میچ کھیلنا کافی مشکل ہوگا، وہ نہیں جانتے کہ کھلاڑی کس طرح کھیل پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں ۔ یونس خان نےکہا کہ آسٹریلوی کرکٹر فل ہیوز کی موت پرمیچ ملتوی ہوا تھا، چوتھا ون ڈے بھی ملتوی ہوجائے تو حرج نہیں۔ جبکہ قومی کرکٹ ٹیم کے منیجر معین خان کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی وجہ سےانٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہورہی،سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں،پوری ٹیم کو سانحہ پشاور کا غم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے آگے نہیں جھکیں گے،اس لیے میچ کھیلنےکا فیصلہ کیا۔ شایدمعین خان کے نزدیک پاکستان کی تاجر برادری دہشت گردوں کے آگے جھک گئی ہے جو اُس نے آج کاروبار بند رکھا۔ میچ سے قبل پشاور سانحہ کے شہداء کیلئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور کھلاڑیوں نے فاتحہ خوانی اور سوگوار خاندانوں کے لیے صبر کی دعا کی۔ قومی ٹیم کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کے کھلاڑی بھی بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر میچ کھیل رہے ہیں۔کیوی ٹیم کے منیجر کاکہنا ہے کہ غم کی اس گھڑی میں نیوزی لینڈ ٹیم اداس ہے اورکرب محسوس کرتی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پی سی بی دکھ کی اس گھڑی میں پشاور اسکول حملے کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ ہے، بورڈ نے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ابو ظہبی میں کھیلے جانے والے چوتھے ایک روزہ میچ کی آمدنی شہدا ء کے لواحقین اور اسکول کی تعمیر نو کیلئے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ چوتھا ایک روزہ میچ ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن براڈ کاسٹرز اور نیوزی لینڈ مینجمنٹ کی کمٹ منٹس کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا، پاکستان دہشتگردی کے خطرے کے باعث پہلے ہی بیرون ملک کھیلنے پر مجبور ہے اگر ہم نے دہشت گردوں کو بیرون ملک ہونے والے میچز کو بھی ڈسٹرب کرنے کی اجازت دیدی تو یہ بڑا نقصان ہو گا،اس لیئے شیڈول کے مطابق میچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے ،کھلاڑی سیاہ پٹیاں باندھیں گےاور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی ، پرچم سرنگوں رہے گا۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ کے چيف ایگزیکٹو ڈیوڈ وائٹ نےکہا تھا کہ سانحہ پشاور پر پاکستانی ٹیم کی طرح اُن کے دل بھی غمزدہ ہيں، وہ آج کے میچ سے متعلق پاکستان ٹیم کے فیصلے کے منتظر ہیں، پاکستان جو بھی فیصلہ کرے گا وہ اس کا احترام کریں گے ۔
افسوس ہوا معین خان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کے بیانات کو پڑھکر ۔ معین خان اور پی سی بی کے ترجمان ایک طرف تو ہمیں بہادری کا سبق دئے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ترجمان کا یہ کہنا کہ میچ ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن براڈ کاسٹرز اور نیوزی لینڈ مینجمنٹ کی کمٹ منٹس کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ پھر ترجمان کا یہ احسان جتانا کہ ایک روزہ میچ کی آمدنی شہدا ء کے لواحقین اور اسکول کی تعمیر نو کیلئے دی جائے گی، کچھ ناقابل فہم باتیں ہیں۔ یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین شہریار خان کی ذمیداری تھی کہ وہ پاکستانی قوم کے جذبات کا خیال کرتے اور آج کے میچ کو ملتوی کرواتے، آسٹریلوی کرکٹر فل ہیوز کی موت پرمیچ ملتوی ہوا تھا، بلکل صیح ہوا تھا لہذا اگرچوتھا ون ڈے بھی ملتوی ہوجاتا تو کوئی حرج نہ ہوتا۔ شاید پاکستان کرکٹ بورڈ اور اُسکے چیرمین شہریار خان نے قوم کے جذبات کو سمجھا ہی نہیں، شہر یار خان ایک ریسرچ سروئے کروالیں کہ عام طور کتنے پاکستانی میچ دیکھتے ہیں اور آج کتنوں نے دیکھا، مجھے یقین ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا، اگر اایک آسٹریلوی کھلاڑی کی موت پر میچ ملتوی ہوسکتا ہے تو جناب شہر یار صاحب یہاں تو 148 بےگناہ شہیدوں جن میں 132معصوم بچے بھی شامل تھے کے غم میں لازمی میچ ملتوی ہونا چاہیے تھا۔ میں اور سارا پاکستان کرکٹ کے متوالے ہیں لیکن شاید اکثریت میری اس بات سے متفق ہوگی کہ “کاش پاکستان آج نیوزی لینڈ کے ساتھ چوتھا میچ نہ کھیلتا”۔