تحریر۔۔۔ شفقت اللہ خان سیال میں اپنے دوست سے ملنے اس کے گھر گیا وہا ں پہلے اور بھی دوست ما جود تھے میں ان سے ملا اور پھر ہم لوگ آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئے ۔میرا دوست بولا یار مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس مہنگائی نے غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آج کے اس مہنگائی کے دور میں اگر کسی غریب کو دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی مل جائے تو بڑی بات ہے ۔دیکھوں کے آج کے اس دور میں آٹا۔چینی۔گھی ۔دال۔ چاول۔ دودھ وغیر ہمیں کتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ آج دودھ 70 روپے سیل ہو رہا ہے آٹا تقریبا 1600 روپے فی من سیل کیا جا رہا ہے چینی 56 روپے سیل ہو رہی ہے اسی طرح ہر چیز میں اضافہ ہو چکا ہے اوپر سے ہمارے مسلمان بھا ئی دوکاندار حضرات جو خاص کر محلوں میں دوکانداری چلا رہے ہے جو اکثر اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے ہر چیز میں بازار سے زیادہ ریٹ وصول کر رہے ہے۔
ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس غریب کے گھر میں آج چولہا جلا بھی ہے کہ نہیں ۔ان کو ان با تو ں سے کوئی غرض نہیں افسوس صد افسوس کہ آج ہم نا م کے مسلمان رہے گئے ہے ۔ایک غریب مزدورکی دہاڑی دار مزدور کی مزدوری 300 روپے ہے وہ بھی اس کو کام ملا تو ۔اس سے پوچھوں کہ وہ شام کو اپنے بیوئی بچوں کو دودھ لے کر دے گا چینی۔گھی۔آٹا وغیرہ لیے کر دیئے گا کہ اپنے بیوئی بچوں کے لیے سبزی وغیرہ لیے کر دیئے گا ۔وہ غریب 300 روپے میں وہ کیا کیا پورا کرئے گا ۔اوپر سے ہمارے مسلمان بھائیوں نے جو دوکاندار حضرات ہے انہوں نے ہر چیز میں اضافہ کیا ہوتا ہے خاص کر جو محلوں کے دوکاندار ہے اگر حکومت کسی چیز میں ریٹ کا اضافہ کر بھی دے۔
تو ان دوکانداروں کے پاس جو پہلے کا سامان ماجود ہوتا ہے ان دوکانداروں نے اس نئے ریٹ سے زیادہ فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں کیا یہی مسلمانیات رہے گئی ہے کہ ہم کو اپنے کسی غریب مسلمان بھائی کا احساس تک نہ ہے کہ نہ جانے اس کی آج کی دیہاڑی لگی بھی ہے کہ نہیں یہ مسلمان دوکانداروں کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ان کو اس بات سے بھی نہیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچوںنے نہ جانے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں کہ نہیں اس کے کمسن بچوں کو دودھ ملا کے نہیں نہیں ان کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ۔کہ آج ہم بس نام کے مسلمان رہے گئے ہیںآج اس مہنگائی کے اس دور میں اس غریب مزدور سے پوچھ کہ تیراآج کا م لگا کے نہیں ۔اگر نہیں لگا تو بتا اس غریب کے دل پر کیا گزررہی ہو گئی ۔کہ اس کے بیوی بچے بھوک سے رو رہے ہوں گئے۔
وہ کچھ نہ کر سکے گا تو اس غریب نے تو صرف رونا ہی ہے اگر اس کی دہاڑی لگا بھی جائے ۔تو بتائو کے وہ چولہے کے لیے لکڑی جو 600روپے من ہے لیے آئے یا اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ کھانے کو ۔بتائو کے اس غریب نے اپنا اور اپنا اور اپنے بیوئی بچوں کا تن ڈھکنے کو کپڑا بھی ہے کہ نہیں ان کے پائوں میں جوتے بھی ہے کہ نہیں ۔مگر نہیں مسلمان جوکہ نام کے ہی مسلمان رہے گئے ہیں ان دوکانداروں کو اس سے کوئی غرض نہیں کیوں کہ ہم میں احساس نام کی چیز ہی ختم ہو گئی ہے اس مزدور سے پوچھ کے اس کو ایک دن کام نہ ملے تو وہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے آگے ہاتھ کرکے اپنے بچوں کا واستہ دیئے کر چند روپے کی بھیک ما نگتا ہے
Muslim
تو اکثر نام کے ہی مسلمان اس کو کہتے ہیں جا دفعہ ہو جا ہٹا کٹا تا ہے جا کے محنت مزدوری کر کے بیوئی بچوں کا پیٹ پال مگر اس کو کیا معلوم کہ آج اس غریب کو کام نہیں ملا۔ او مسلمان وہ تجھ سے خدا کے نام پر مانگ رہا ہے اور تو اس کو کہہ رہا ہے کہ جا ۔اونام کے مسلمان ڈر اس وقت سے کہ خدا نہ کرئے کل تیرے پر کوئی ایسا وقت آئے آج تیرے پاس دولت ہے عزت ہے لوگ تیری عزت کرتے ہیں آج تیرے پاس کرپشن سے پیدا کیا پیسہ ہے یا پھر تیرے باپ دادا تیرے لیے جاگیر چھوڑ گئے ۔مگر ڈر ڈر اس وقت سے کہ خدا نہ کرئے کل تجھ کو یہ دن دیکھنا پڑے ۔او نام کے مسلمان اگر تو اس غریب کو کچھ دیئے نہیں سکتا۔ تو اس کے ساتھ بد سلوکی کا بھی تجھ کو حق نہیں ۔افسوس صدافسوس۔ٍاگر آج ہم میں صرف یہ احساس پیدا ہو جائے
تو آپ کو ایک بھی غریب نظر نہیں آئے گا۔دوسرا دوست بولابھائی یہ احساس ہم میں پیدا کرئے گا کون ۔یہ احساس ہمیں خود اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ۔ساتھ ہی بولا کہ میں ایک دن اپنے ہی محلے کی دوکان پر گھر کا سامان لینے گیا تو وہاں میں نے دیکھا ایک غریب مزدور دوکاندار کے آگے ہاتھ جوڑ کے کہا رہا تھا بھائی مجھ آج کام نہیں ملا میرے چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم کھا اور اللہ کے نام پر مجھ کو ادھار دیئے دو ۔ تو اس دوکاندار نے کہا کہ بھائی جائو میں نے تم کو ادھار نہیں دینا ۔اتنے میں ایک راہ گیر مسافر کا گزر ہوا۔وہ بزرگ آدمی تھا اس نے پوچھا کیا ہو ا ہے تو اس وقت لوگوں نے بتایا کہ یہ غریب مزدور ہے آج اس کو کام نہیں ملا اس نے دوکاندار کی منت سماجت کی ہے کہ ادھا ر دے دو ۔اور دوکاندار ادھار دینے سے انکاری ہے اس کے بچے صبح سے بھوکھے ہے اس لیئے یہ غریب رورہا ہے۔
وہ مسافر دوکاندار کے پاس گیا اور بولا اس میرے مسلمان بھائی کو آٹا کے دوچارتھیلے دے دو۔ چینی ۔اور گھر کا جو بھی ضروری سامان ہے اس کو دو۔دوکاندار بولا توکون ہے میں نہیں دیتا ادھار ۔بزرگ مسافر بولا میں تم کو اس سامان کا بل دیتا ہوں ۔ تو اس دوکاندار نے اس کو سامان دیئے کر اس مسافر سے بل لیئے لیا ۔اس مسافر نے اس مزدور مسلمان بھائی کے ہاتھ میں کچھ روپے بھی دئے دیئے ۔اور دوکاندار سے بولا تم کو ئی حق نہیں کہ تم کسی غریب کو بے عزت کرو۔کل کو خدا نہ کرئے تم پر ایسا وقت آئے۔یہ بولا کر بزرگ چلا گیا اور غریب مزدورمسلمان اس بزرگ مسافر کو دعا دیئے رہا تھا۔