دو غلطیاں کبھی ایک صحیح قرار نہیں پا سکتیں ۔ اگرکوئی ایمپائر کسی ٹیم کے کھلاڑی کو غلط آئوٹ قرار دے ڈالے تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ وہ دوسری ٹیم کے کسی بے قصور کھلاڑی کو بھی اسی طرح آئوٹ قرار دے کر اسے بیلنس کر دے ۔ایمپا ئر کاکام ذاتی انا کی تسکین اور پسندو نا پسند نہیں ہو تا بلکہ اس کا کام انصاف کو لاگو کرنا ہو تا ہے۔ ڈکی برڈ دنیا کے بڑے قابلِ احترام ا یمپائر تصور ہوتے تھے اور یہ مقام انھوں نے اپنی غیر جانداری سے بنایا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ١٩٨٢ کے دورہِ انگلستان میں ڈکی برڈ نے اپنے ملک( انگلستان) کے خلاف کئی مشکل فیصلے کئے تھے جس سے ان کی ساکھ مزید بلند ہوئی تھی ۔ان دورے میں ایک فیصلہ انگلستان کی ٹیم کے آخری کھلاڑی کو ایل بی ڈبلیو آئوٹ قرار دینا تھا جس کی وجہ سے انگلستان کو فالو آن ہونا پڑا تھا ۔ یہ بڑا ہی مشکل فیصلہ تھا لیکن ڈکی برڈ نے اپنے وطن کی جانبداری کی بجائے کرکٹ کی ساکھ اور وقار کو ملخوظِ خاطر رکھا تھا ۔اس زمانے میں غیر جانبدر ایمپائر نہیں ہو تے تھے اور نہ ہی ٹی وی کیمروں کو تھرڈ ایمپائر کا درجہ حاصل تھا ۔ ایمپائر جو چاہتے تھے کرتے تھے اور ان پر کوئی چیک نہیں ہوتا تھا۔بھارتی ٹیم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تیرہ کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی کیونکہ بھارتی ایمپائر جانبداری کا وطیرہ اپنائے رکھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت کو بھارت میں ہرانا ممکن نہیں ہو تا تھا۔اب اسے حسنِ اتفاق ہی کہا جائے گا کہ عالمی شہرت کے حامل ایمپائر ڈکی برڈ نے عالمی کرکٹ کپ کے سیمی فائنل میں عمران خان کو غلط آئوٹ قرار دیا تھا اور ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا تھا بلکہ یہ انسانی خطا اور ججمنٹ کا معاملہ تھا۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے اس فیصلہ پر کسی نے بھی ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا ئی تھی بلکہ سے ان کی ججمنٹ کی کمزوری قرار دیا تھا۔بہر حال عمران خان نے مطالبہ نہیں کیا تھا کہ اب مخالف ٹیم کے کسی اعلی کھلاڑی کو آئوٹ قرار دے کر اسے بیلنس کیا جائے تا کہ غلط فیصلہ سے پیدا شدہ اثرات کا مداوا ہو جائے۔ ڈکی برڈ کے فیصلہ سے پاکستان سیمی فائنل ہار گیا تھا لہذا ثابت ہوا کہ غلط فیصلہ ہمیشہ منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
ڈکی برڈ نے اپنے غلط فیصلہ پر پاکستان سے معذرت بھی کی تھی لیکن بعد از واردات واویلا بے معنی تھا کیونکہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔میں جس زما نے میں ابو ظبی کرکٹ کونسل کا جنرل سیکرٹری تھا تو مجھے اس بات کا ذاتی مشاہدہ تھا کہ اگر کسی ایمپائر نے غلطی سے کسی ٹیم کے ایک کھلاڑی کو آئوٹ قراردے دیا تو پھر اسی ٹیم کے کسی اعلی کھلاڑی کومحض اس بات پر ناٹ آئوٹ قرار دے دیا جاتا تھا کہ وہ اس سے پہلے اسی ٹیم کے اہم کھلاڑی کو غلط آئوٹ قرار دے چکا تھا ۔ اسے بیلیسنگ فیصلہ کہا جاتا ہے جو ہمیشہ متنازعہ رہتا ہے لہذا ایسی غلط اپروچ کو کوئی بھی صاحبِِ عقل انسان تسلیم نہیں کرسکتا ۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کسی مجرم کی بجائے کسی بے گناہ انسان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے ۔سکھا شاہی میں یہی ہوتا تھا کہ جس کی گردن میں رسہ فٹ ہو جاتا اسے لٹکا دیا جاتا تھا ۔یعنی کسی کا مجرم ہونا ضروری نہیں تھا بلکہ رسے کا گردن میں فٹ ہونا زیادہ اہم ہوتا تھا۔اس زمانے کے انصاف سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔موجودہ دور میںکیمرہ کی آنکھ نے ہر قسم کی ایڈجسٹمنٹ کے دروازے بند کر دئے ہیں کیونکہ کرکٹ کے نئے قوانین کے مطابق کھلاڑی ریویو کا آپشن استعمال کر کے ایمپائر کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ گویا کہ نئی ٹیکنالوجی سے اب کسی کھلاڑی کو غلط آئوٹ دینا یا آئوٹ نہ دینا ممکن نہیں رہا۔،۔
پاکستانی سیاست میں بے گناہ اور گناہ گار کا تصور گڈ مڈ ہو تا جا رہا ہے۔سمجھ نہیں آ رہی کہ کون ملزم ہے اور کون بے گناہ ہے؟کوئی دورانِ تفتیش گرفتار کر لیا جاتا ہے اور کسی کو ریفرنس دائر ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا جاتا۔ قمرالاسلام کو دورانِ تفتیش گرفتار کر لیا گیاتھا ۔ وہ آٹھ ماہ تک زیرِ حراست رہے لیکن نیب ان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہ کر سکالہذا ہائی کورٹ نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا۔سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بے گناہ کو مفروضوں پر گرفتار کیا جانا چائیے؟ کیا کسی با عزت شہری کو جیل کی چار دیواری میں محض اس وجہ سے ڈال دیا جائے کہ وہ مخالف جماعت کا امیدوار ہے۔
قمرالاسلام ٢٠١٨ کے انتخابات میں راوالپنڈی سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار تھے لیکن الیکشن سے چند روز پہلے انھیں گرفتار کر کے میڈیا میں وہ شورو غوغہ بلند کیا گیا کہ اللہ کی پناہ۔ان پر صاف پانی میں کرپشن اورگھپلوں کا الزام تھا لیکن آٹھ مہینوں کے بعد کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا۔ قمرا لاسلام کا کہنا تھا کہ نیب نے ان کی گرفتاری سے ان کی شہرت کو جو نقصان پہہنچایا اس کا مداوا کیسے ہو گا؟ بابر اعوان پر ریفرنس دائر ہونے کے باوجود انھیں گرفتار نہیں کیا جاتا۔ان پر نندی پور پراجیکٹ میں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے ۔ پرویز خٹک،زبیدہ جلال،فہمیدہ مرزا ،اسد قیصر ،محمود خان،اعظم سواتی اور چوہدری پرویز الہی کے خلاف بھی قانون حرکت میں نہیں آر ہا۔ان سب پر سنگین الزامات ہیں لیکن نیب نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کی ہو ئی ہیں۔ علیم خان کی گرفتاری نے حالات میں ایک عجیب سنسنی پیدا کر دی ہے۔
اپوزیشن ایک زمانے سے مطالبہ کررہی تھی حکومتی وزرا کا بھی احتساب کیا جائے ۔ اپوزیشن کو تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے جبکہ کئی نیب زدہ وزراء وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔احتساب اس وقت اصلی احتساب مانا جائیگا جب نیب زدہ وزرا بھی جیلوں کی ہوا کھائیں گے۔اس وقت کئی وزرا نیب کو مطلوب ہیں لیکن نیب ان سے صرفِ نظر کر رہی ہے اور سارا زور اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ پر صرف کررہی ہے۔علیم خان کی گرفتاری سے نیا ماحول پیدا ہوا ہے جس میں اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ مزید حکومتی وزرا بھی گرفتاری سے بچ نہیں پائیں گے۔علیم خان نے اپنی گرفتاری سے چند روز قبل خود ایک پریس کانفرنس میں اپنی گرفتاری کو بیلنسنگ عمل سے موسوم کیا تھا اور آج اپوزیشن بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ علیم خان کو مسلم لیگ(ن) کے کچھ اہم رہنمائوں کی گرفتاری کو رو بعمل کرنے کیلئے ترب کے پتے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔علیم خان کی گرفتاری کے فورا بعد سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری شرع ہو چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر کامران مائکل کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے اور کئی دوسرے اہم راہنمائوں کی گرفتاری کی فہرست بالکل تیار ہے ۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مکمل انکوائری کے بغیر کسی کو گرفتار کرنا قانون و انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
ہاں اگر مطلوبہ شخص کے خلاف ٹھوس ثبوت ہوں تو پھر اس کا ریفرنس تیار کر کے اس کی گرفتاری کا ڈول ڈالا جانا چائیے ۔ تحقیقات کے دوران محض قیاسو ں پر گرفتاریاں جمہوری سسٹم کو کمزور کریں گی ۔علیم خان ملک سے بھاگ نہیں رہے تھے اور نہ ہی اس بات کا کوئی شائبہ تھاکہ وہ مفرور ہو جائیں گے لہذا ان کی گرفتاری کی قطعا کوئی ضرورت نہیں تھی۔اگر معیار یہی ہے کہ تحقیقات کے دوران ملزموں کا گرفتار کیا جانا ضروری ہے تو اس سے تو آدھی کابینہ جیل کی چار دیواری میں بند ہو جائے گی۔
علیم خان کی گرفتاری کا موازنہ شہباز شریف کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میاں شہباز شریف کا تعلق اپوزیشن سے ہے جبکہ علیم خان موجودہ حکومت کے انتہائی اہم ستون تصور ہو تے ہیں لہذا ان کی گرفتاری حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ حکومت کا پنجاب کافعال ترین شخص کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے اور حکومت کرپشن مکائو پروگرام کے نعرے بلند کر رہی ہے۔پہلے جہانگیر ترین فارغ ہو ئے اب علیم خان کوجیل جانا پڑ گیا ہے جبکہ بہت سے قطار میں کھڑے ہیں۔ کیا یہی پی ٹی آئی کا اصلی چہرہ ہے؟ میری ذاتی رائے ہے کہ ہماری اشرافیہ کا سدا سے یہی حال ہے اس میں حکومت یا اپوزیشن کی کوئی تفریق نہیں ہے۔کرپشن اور لوٹ کھسوٹ اشرافیہ کا پرانا وطیرہ ہے لہذا جسے چھیڑوگے وہی داغی نکلے گالیکن اس کے باوجود سادہ لوح عوام انھیں بے گناہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال