واشنگٹن (جیوڈیسک) شام میں پیر کے روز ہونے والی نئی فضائی بم باری کے نتیجے میں شمالی صوبہ حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ گاؤں کی رہائشی عمارات زمین بوس ہو گئیں، جس میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہوئے۔
انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے برطانیہ میں قائم شامی ادارے نے کہا ہے کہ جس مقام کو شدید نقصان پہنچا وہ قطرجی میں واقع ہے، جہاں امدادی کارکن زخمیوں کو ملبے سے نکالنے کا کام کر رہے تھے۔ ان ہلاکتوں کے بعد گذشتہ 24 گھنٹوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 45 ہو گئی ہیں۔
کئی ہفتوں سے شامی اور روسی دونوں افواج حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ ٹھکانوں پر بم باری کرتے رہے ہیں، ایسے میں جب حکومت کے خلاف چھ سال سے جاری بغاوت کے دوران شام کے صدر بشار الاسد اس خوش حال شہر پر اپنا کنڑول واپس لینے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔
ایک ایمبولنس ڈرائیور نے کہا ہے کہ تازہ حملے مین روسی لڑاکا طیاروں نے ایک پانچ یا چھ منزلہ عمارت ہو نشانہ بنایا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملبے سے درجنوں افراد کو نکال لیا گیا، جب کہ ’’اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں‘‘۔
یہ بم باری ایسے وقت ہوئی جب عالمی سفارت کار شام کی لڑائی ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جس میں اب تک 300000 سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔
شام میں کئی جنگ بندیاں ناکام ثابت ہوئی ہیں، جن میں حالیہ روس امریکہ امن منصوبہ شامل ہے۔ روس نے پیر کے روز کہا ہے کہ امن مذاکرات سوٹزرلینڈ کے شہر لوزیان میں دوبارہ ہوں گے، جس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اُن کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف، کے علاوہ ایران، مصر، عراق، سعودی عرب، ترکی، قطر اور اردن کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کو بات چیت کر چکے ہیں۔
یورپی یونین کی امور خارجہ کی سربراہ فریڈریکا مغیرنی نے کہا ہے کہ یورپی یونین شام میں اس کے اقدامات پر روس کے خلاف پابندیاں لگانے پر غور نہیں کر رہی ہے۔
انھوں نے پیر کے روز لگزمبرگ میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’کسی رکن ملک کی جانب سے کسی نے اس بات کی تجویز پیش نہیں کی‘‘۔