تحریر: تنویر احمد پچھلے ساڑھے 5 سالوں میں شام کے اندر اسدی، روحانی اور پیوٹن کی خون آشام فوجوں نے شامی اسلام پسندوں اور عام سنی مسلمانوں کے خلاف جس سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے اور گزشتہ چند ماہ سے اس درندگی میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اسے تو دیکھ کر حیوانوں کا سر بھی شرم سے جھک گیا اور مغرب کو بھی انسانوں پر رحم آ گیا ہے. برطانوی اخبار (دی گارڈین) نے حلب کو سب سے بڑا اجتماعی قبرستان قرار دیا ہے.
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام میں اب تک 3 لاکھ لوگ شہید اور 18 لاکھ لوگ بے گھر کئے جا چکے ہیں. دوسری طرف اس سنگین انسانی المیے کے حل کے لیے کوئی بھی مسلمان ملک اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ، ماسوائے ترکی اور پاکستان ، کشمیر سمیت پوری دنیا میں اپنے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچنے والی واحد تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن کے کارکن جو اپنی اوقات سے بڑھ کر انکی مدد کو پہنچ رہیں ہیں. لیکن شامی مسلمان جن کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ان ملکوں کے سربراہان کی مجرمانہ خاموشی ایک سوالیہ نشان پیدا کرتی ہے.
دوسری طرف عرب ممالک کی خاموشی بھی بہت وحشت ناک ہے جو ذاتی مسئلہ پر تو ساری دنیا میں اپنے سفارتی مشنز کو متحرک کر دیتے ہیں اور اسے عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے اور ایک دوسرے ملک سے ٹکر لینے کی بات کی جاتی ہے لیکن انبیاء کرام کی سر زمین شام اور حلب کے معاملے میں ان ممالک کے سربراہان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔مجھے تعجب ہوتا ہے ایسے لوگوں پر جو روس، امریکہ، برطانیہ اور فرانس، اقوام متحدہ کی مجرمانہ غفلت اور خاموشی پر بلا وجہ تنقید کرتے ہیں،
Aleppo
ان لوگوں کو بندہ بتائے کہ بھائی جن لوگوں کی غفلت کو تم موردِ الزام ٹھہرا رہے ہو وہ لوگ ہی تو دراصل اس المیہ کا سبب بنے ہیں. تم بتاؤ تم لوگوں نے ان بے کس اور مقہور مسلمانوں کے لئے کتنی آوازیں بلند کیں ہیں جو تم ان پر تنقید کرتے ہو.دراصل ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس المیے کے اصل ذمہ دار ہم ہیں. ہم ہی نے اسکی راہیں ہموار کی ہیں اور اب اس قدر ظلم و ستم پر بھی ہمارا کردار بھی خاموش تماشائی سے زیادہ نہیں اور یہ حالات اور اس کے ذمہ دار صرف حکمران طبقہ ہی نہیں ہم اور آپ بھی ہیں. آج سے چند دن پہلے فلاح انسانیت فاونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالروف صاحب نے شہر کے ایک مقامی ہوٹل میں شام کے حوالہ سے ایک ڈاکو مینٹری دکھائی جس میں حلب کی تازہ ترین صورتحال بیان کی گئی.
حلب کی دلدوز اور قیامت خیز تصاویر دیکھ کر میرا دل بھی بے چین ہوا تھا، میرا ضمیر بھی مجھے ملامت کر رہا تھا مجھے ان کا درد محسوس ہو رہا تھا، رات کو بے چین ہوتا تھا لیکن اب وہ حالت نہیں رہی، اب وہ بے چینی بھی جا رہی ہے اب رات کو سکون کی نیند آتی ہے، حالانکہ عزتیں اب بھی پامال ہو رہی ہیں، بچے اب بھی قتل کیے جا رہے ہیں، مساجد اب بھی شہید کی جا رہی ہیں، عورتوں اور بوڑھوں کو اب ب?ی شہید کیا جا رہا ہے لیکن اب ان مناظر کو دیکھ کر کوئی غیر معمولی احساس نہیں ہوتا، دل مضطرب نہیں ہوتا، ضمیر ملامت نہیں کرتا، دل دہلتا نہیں، کلیجہ منہ کو نہیں آتا۔قرآن میں سورة النساء کی وہ آیت اثر نہیں کرتی، جس میں میں اللہ مجھے سخت اور تاکیدی انداز میں کہتا ہے کہ ,,,اور تم کیوں نہیں اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ان میں سے کمزور مرد اور عورتوں اور ان بچوں کے لئے جو کہتے ہیں اے ہمارے رب نکال ہمیں اس بستی سے جہاں کے رہنے والے ظالم ہیں اور بھیج ہمارے لیے کوئی حمایتی اور مددگار “اللہ کی قسم جب میں اپنے آپ کو اور اس امت کو اور اس کے صاحب اقتدار لوگوں کی بے حسی ، بے ضمیری اور شقی القلبی کو دیکھتا ہوں تو میرے پاس اس مجرمانہ خاموشی کا جواب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں سے حلب نہیں قلب گیا ہے، حلب نہیں قلب گیا ہے۔