تحریر : قدسیہ مدثر پچھلے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر شام کے علاقے حلب میں ہونے والی بمباری اور شامی بچوں بوڑھوں مرد و خواتین کی کٹی پھٹی لاشیں شام پر ہونے والے مظالم چیخ چیخ کر پتہ دے رہی ہیں۔ امت مسلمہ کو اسکا حقیقی فرض بتا رہی ہے۔ آج شامی مسلمان رو رو کر امت مسلمہ کو جگا رہے ہیں۔انکو اپنے اوپر ہونے والے مظالم سوشل میڈیا کے ذریعے بتا رہے ہیں لیکن غفلت کے اندھیروں میں سوئی امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ہمارے نبی ص نے تو تمام امت مسلمہ کو ایک جسد واحد کی مانند قرار دیا ہے اور فرمایا کہ جسم کے اگر ایک حصے میں تکلیف ہو تو اس درد کو پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ ۔ہماری بہنیں۔بچے۔بھائی اور بزرگ حلب میں جن اذیتوں کا مقابلہ اپنے ایمان کو قائم رکھتے ہوئے کر رہے ہیں اگر ہم اسکو محسوس کی حد تک بھی محسوس کریں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔اور کتنے ہی جگر گوشے جن کو ماں کی آغوش بھی نصیب نہ ہوئی بشار الاسد کی بربریت کا شکار ہو گئے۔کتنے بچے جو کچھ عرصے پہلے پارکوں میں کھیلنے جاتے تھے آج شام کے گلی کوچوں اور پارکوں کر کھنڈرات میں دیکھ کر ان کے دل و دماغ پر کیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے۔ آخر ان کا کیا قصور تھا؟ آذادی کیا ہوتی ہے اس کی قدروقیمت کا اندازہ ان بزرگوں سے پوچھیے جن کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا گیا۔ان ماوو ¿ں سے پوچھیں جن کی آغوش سے ان کے لخت جگر سمیت ابدی نیند سلا دیا گیااور ان سے معلوم کر نی چاہیئے جن کے سروں سے ماں باپ کی شفقت کو چھین لیا گیا۔
پھر حلب مجھ سے کہتا ہے تم شہر اماں کے رہنے والو درد ہمارا کیا جانو۔۔۔ ہم آزاد فضاووں میں اس درد اور کرب کو محسوس نہی کر سکتے جو میری شامی بہنوں پر بیت رہی ہے۔فضا میں بلند انکی چیخیں امت مسلمہ پر نوحہ کناں ہیں۔
Syria War
حلب 25 لاکھ کا شہر تھا اب اسکی آبادی محض 12 لاکھ ہے۔یہ 12 لاکھ بھی مغربی حلب میں رہتے ہیں۔جن پر سرکاری فوج کا پہلے سے قبضہ ہے۔مشرقی حلب میں 80 سے 90 ہزار لوگ جو انخلائ کے منتظر ہیں۔اور مشرقی حصے کا بھی ایک بھی حصہ سالم نہی۔کوئی مسجد باقی نہی رہی حتیٰ کہ اسلامی تاریخ کی شاہکار تاریخی قلعہ نما مسجد امیہ ایک ڈراو ¿نا کھنڈر کی عکاسی کر رہا ہے۔حلب کا کوئی سکول کوئی ہسپتال باقی نہی رہا۔ویران گلیوں اور سڑکوں میں کوئی جانور بھی نظر نہی آئے گا۔وہ شہر جس کی تاریخ انبیائ کے مسکن ہونے کا پتہ دیتی ہے۔جس کی زمین میں بیشتر پیغمبر مدفون ہیں آج وہ شہر خاموشاں کا منظر اسکی تباہی اور بدحالی سے عیاں ہو رہا ہے۔ حلب کا انسانی المیہ ہے کہ یہاں 5 سال میں 5 لاکھ سے زیادہ شہری شہید کئے جاچکے ہیں۔
بشارالاسد نے جب سے شامی مسلمانوں پر جبروستم کا نیا باب رقم کیا خطے کا عوامی ردعمل اتنا شدید آیا کہ اسکی حکمرانی خطرے میں پڑ گئی پھر اسکو تحفظ دینے کے لئے ایران اور حزب? نے بشار الاسد کی حمایت کی تاکہ مسلمانوں کے سنی علاقوں پر قبضہ کر لیا جائے اور اب ایران کی فوجیں بے دردی سے شامی مسلمانوں کو مار رہی ہیں۔ایران سنی مسلمانوں کی نسل کشی میں اس قدر اندھا ہوگیا ہے۔کہ عراق میں قبضہ کر لینے کے بعد بھی شام میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے بعد بحرین اور یمن پورے خطے کو شیعہ اسٹیٹ بنا دینا چاہتا ہے اور ان کے ساتھ امریکہ اور روس مسلمانوں کی نسل کشی کے خواہاں ہیں۔تا کہ ان کے نوجوانوں کے اندر آذادی کی تڑپ کو ہمیشہ کیلئے کچل دیا جائے۔یہ دجالی قوتیں آپس کے گٹھ جوڑ سے اپنے مفادات کی خاطر جو کشت وخوں کا بازار گرم کر رہی ہیں۔اس پر امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی برابر کی شریک ہے۔
ایک جسد واحد ہونے کے ناطے کیا ہمارا فرض نہی بنتا کہ ہم ان معصوم بچوں۔عورتوں بزرگوں کی آواز بن جائیں۔تمام امت مسلمہ یک جہت ہو کر اقوام عالم کو بتا دیں کہ مسلمان کمزور نہیں ہیں۔اگر ہماری حکومت اور دجالی میڈیا بھی اپنا فرض ادا کریں تو شاید اقوام متحدہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔یا کم از کم ہم ? کے ہاں سر خرو ہوسکیں اور روز محشر وہ ہماری گواہی دیں کہ کون ہمارے ساتھ کھڑا تھا۔اس کا عملی مظاہرہ ترکی نے پیش کیا۔ترکی نے عالمی سطح پر کوشش کرتے ہوئےحلب میں جنگ بندی اور باقی رہ جانے والے 80 ہزار شامی بے گناہ لوگوں کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کیں۔ان کی دیکھا دیکھی اقوام متحدہ کو بھی ہوش آیا۔اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے۔کہ حلب کے مکینوں کے اس دکھ کو غیر مسلم باشندے جو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں۔آئے روز سڑکوں پر نکل پر انسانیت ہمدردی کی خاطر روس۔امریکہ اور ایران کی وحشیانہ حملوں کی مزمت کر رہے ہیں۔
Aleppo
مسلمانوں کی خاموشی اس پر سوالیہ نشان ہے؟؟ حلب ہمیں پکار پکار کر بلا رہا ہے۔دیکھو اے نبی ص کی امت جس نبی ص نے اخوت۔محبت اور بھائی چارے کا درس دیا۔آج اس کی امت بے یارو مددگار ہے لیکن کوئی نہی جو میرے دکھوں کا ازالہ کر سکے۔کوئی صلاح الدین ایوبی تو آئے جو حلب کی ماوو ¿ں۔بہنوں۔بیٹیوں کی عصمت ریزی ہونے سے بچائے۔ حلب کی زمین کربلہ بنی ہوئی ہے۔جس طرح امام حسین رض کے جگر گوشوں کے جسموں پر نیزے اتارے گئے تھے آج کے یزید اور کوفی مل کر امت مسلمہ پر فاسفورس بم گرا رہے ہیں۔اور حلب کے بچے جوان اور بوڑھے صدا دے رہے ہیں۔
کہاں ہے ارض و سماں کا مالک کہ چاہتوں کی رگیں کریدے ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے ارے کوئی مسیحا ادھر بھی آئے کوئی تو چارہ گری کو اترے افق کا چہرہ لہو سے تر ہے زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے۔