واشنگٹن (جیوڈیسک) شام کے باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے حلب میں بڑی سطح کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، تاکہ شہر کے منقسم مشرقی حصے کے مضافات پر سرکاری قبضہ خالی کرایا جائے۔
انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے شامی ادارے نے جمعے کے روز بتایا کہ مغربی حلب میں باغیوں کی گولہ باری کے نتیجے میں 15 شہری ہلاک جب کہ 100 زخمی ہوئے۔ فوری طور پر مزید اطلاعات دستیاب نہیں ہوئیں۔
جمعرات کے روز، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے فضائی حملے کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا، جس میں شام کا ایک اسکول نشانہ بنا، جس واقعے میں تقریباً 30 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔
بان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر دانستہ طور پر ایسا کیا گیا تو یہ جنگی جرم سمجھا جائے گا‘‘۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن نے، جو اقوام متحدہ کے تعلیم سے متعلق خصوصی ایلچی ہیں، واقعے کی چھان بین پر زور دیا ہے، آیا یہ جنگی جرم تو نہیں۔
براؤن نے کہا ہے کہ ’’اب سلامتی کونسل پر لازم ہے کہ وہ اس کی تفتیش کرے، اور جنگی جرم ثابت ہونے پر حملہ آور کو کیفر کردار تک پہنچائے، جس سلسلے میں بین الاقومی عدالتِ انصاف کو شامل کیا جائے، اور تفتیش کرائی جائے‘‘۔
سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق، بدھ کے روز لڑاکا جنگی طیاروں نے باغیوں کے زیر کنٹرول ادلب کے ایک گاؤں پر چھ فضائی حملے کیے، جن میں ایک اسکول کو نشانہ بنایا گیا، جس میں چھ استاد اور 22 طالب علم ہلاک ہوئے۔
آبزرویٹری اور وائٹ ہاؤس دونوں نے کہا ہے کہ ان فضائی حملوں کا ذمہ دار شامی یا روسی حکومتیں ہیں۔