واشنگٹن (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتوار کے روز حلب میں تشدد کی مہلک کارروائیوں میں اضافے کے معاملے پر ہنگامی مذاکرات کیے، ایسے میں جب شام اور روس کے لڑاکا طیاروں نے باغیوں کے زیر کنٹرول شامی شہر کے مشرقی علاقے پر بمباری کی۔
امریکی سفیر سمنتھا پاور نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ”یہ بات عیاں ہے کہ اسد حکومت صرف فوجی حل میں یقین رکھتی ہے”۔
سفیر نے کہا کہ ”وہ کہتی ہے کہ وہ شام کا ہر مربع انچ رقبہ فوجی طریقے سے فتح کرکے دم لے گی۔ اور ایسے میں، فوجی حل کا راستا جاری رکھتے ہوئے، اِسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ شام میں بچا ہی کیا ہے”۔
امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا تھا تاکہ روس پر دبائو بڑھایا جاسکے کہ وہ اپنے اتحادی شام کو کنٹرول کرے، اور شہر میں پھنسے ہوئے 275000 افراد کے خلاف حملے بند کروائے۔
اِن حملوں میں میزائل داغنا، بیرل بم گرانا اور توب خانے سے فائر کرنا شامل ہے، جن کے نتیجے میں عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں، گلیوں میں ملبہ جمع ہے جب کہ علاقہ پتھروں کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں 213 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
امریکی سفیر پاوز نے کہا کہ گذشتہ تین روز کے دوران شہر میں 150 سے زائد فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ حلب پر دوبارہ قبضے کے حصول کے لیے روس اور شام ”شدید کارروائی” کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ”امن کی کوششیں کرنے کے برعکس، روس اور اسد لڑائی لڑ رہے ہیں۔ شہری آبادی تک زندگی بچانے کے لیے ضروری ادویات پہنچانے میں مدد فراہم کرنے کی جگہ، روس اور اسد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قافلوں، اسپتالوں اور امدادی کارکنوں پر بم برسا رہے ہیں، جو بیباکانہ طور پر لوگوں کو زندہ رکھنے کی کوششیں جاری رکھےہوئے ہیں”۔
برطانوی سفیر، میتھیو رائیکروفٹ نے کہا کہ ”روس کو چاہیئے کہ وہ پھر سے سیاسی مذاکرات کو جاری کرنے کے لیے درکار صورت حال پیدا کرنے میں مدد دے نا کہ اسے تباہ کرے۔ اگر وہ یہ اقدامات نہیں کرتا، تو پھر روس بمشکل بین الاقوامی اچھوت کی سطح کی سوچ تسلیم کروا پائے گا”۔
فرانس کے سفیر فرانسواں دیترے نے کہا کہ ”حلب میں جنگی جرائم سرزد ہو رہے ہیں”۔ اُنھوں نے اس شہر کا موازنہ، ہسپانوی خانہ جنگی کے دور سے، بوسنیا کی لڑائی میں سراجیوو اور گارنیکا سے کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ حلب ”شہید شہر” بن چکا ہے۔
روسی ایلچی، وٹالی چرکن کے الفاظ میں ”اس کی وجہ سے، ملک کے علاقوں کو بلامتیاز بم حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جب کہ اب امن بحال کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے”۔
اقوام متحدہ کے ایلچی برائے شام، استفان ڈی مستورا نے صورت حال کا مایوس کُن نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ فضائی حملوں کا شمار ناممکن ہوچکا ہے۔