اسلام آباد (جیوڈیسک)15 اگست کی شام ساڑھے پانچ بجے سے اسلام آباد کے جناح ایوینیو کو ساڑھے پانچ گھنٹوں تک یرغمال بنانے کا جو کھیل کھیلا گیا، اس کا ایک کردار تو ملک سکندر ہی تھا جو سب مشین گنز کے زورپر پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کا مذاق بنا رہا تھا، لیکن ایک کھلاڑی اور بھی تھا اور وہ تھی سکندر کی بیوی کنول جو پولیس اور سکندر کے درمیان بظاہر تو رابطہ کار کا کام انجام دے رہی تھی، لیکن وہ کوئی اور ہی کھیل کھیل رہی تھی۔
ایس ایس پی آپریشنز سے بات چیت کے دوران سب کی توجہ سکندر اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان پر تھی، لیکن کنول شاید کہیں اور پیغام پہنچا رہی تھی، ذرا دیکھیے اس کے ہاتھوں کے ان اشاروں کو کبھی کسی کو دائرے میں آنے کا سگنل، تو دوسرے ہی لمحے کسی کو ایک خاص حد تک قریب آنے کا اشارہ اور پھر اس حد کو متعین کرنے کا سگنل، یہ پیغام کہاں پہنچایا گیا، ان اشاروں سے قریب ہی موجود کس شخص یا گروہ کو کیا سگنلز دیے گئے۔
کہیں ایسا تو نہیں جب سکندر پولیس افسر کو باتوں میں الجھائے ہوئے تھا اور اسی دوران کنول نے اپنے مزید ساتھیوں کو کسی غیر متوقع ایکشن سے نمٹنے کے لیے احکامات دیے ہوں، ویسے بھی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کہہ چکے ہیں، اس ڈرامے میں اور لوگ ملوث تھے جن کے تانے بانے ملک سے باہر جا کر ملتے ہیں۔