رپورٹ: اختر سردار چودھری، کسووال الفلاح سکالر شپ سکیم کا 16واں سالانہ کنونشن 15 نومبر 2015 کو شہر لاہور کی تاریخی عمارت ایوانِ اقبال میں منعقد ہوا۔ کتنی خوبصورت جگہ، کتنا ہال اور کتنے ہی خوب صورت مہمانوں سے سجا پڑا تھا۔ ایوانِ اقبال اس عظیم شاعر سے منسوب کہ جو جو خواب دیکھتا تھا اور الخدمت الفلاح سکالر شپ سکیم کے تحت اسی ہال میں جمع ہونے والے ہزاروں مہمان بھی خواب دیکھنے اور اور خوابوں میں رنگ بھرنے والے تھے۔
قاری وقار احمد چترالی کی تلاوت قرآن کریم کے بعد اسد بن وسیم نے خوبصورت انداز میں دربارِ رسالتۖ میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔ جس کے بعد ممتاز مذہبی سکالر خالد محمود بھٹی نے حقوق العباد کے حوالے سے خصوصی درس حدیث دیا۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بورڈ ممبر الفلاح اور ممتاز ماہر ِ تعلیم پروفیسر محمد ضیغم مغیرہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتنا ہی خوشی کا لمحہ ہے جو لمحہ مرشدِ اقبال کے نام ہو جائے ۔ مہینہ بھی اقبال کا اور ہال بھی اقبال کے نام سے منسوب ، اقبال کے جیسے ہر لمحہ سمجھنے کی کوشش بھی کی جائے تو کم ہے۔
پروفیسر محمد ضیغم مغیرہ کہہ رہے تھے کہ پہلی بار الفلاح سکالر شپ سکیم کا سالانہ کنونشن کھاریاں کی بجائے لاہور ہو رہا ہے۔ قطرے سے جس نیکی کا آغاز ہوا تو سمندر کا روپ دھار چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے پروگرام میں ملک بھر سے مثبت سوچ رکھنے والے عظیم لوگوں کو ہم نے جمع کیا ہے۔ آزاد کشمیر سے جناب محمود احمد ہیں جو اقرا بسم ربک الذی خلق کے درس قرآن دینے سے آگے بڑھے اور آیت کی عملی تصویر بن کر آزاد کشمیر سے 90ہزار بچوں کو تعلیم دینے کے پراجیکٹس چلا رہے ہیں۔ اخوت کے ڈائریکٹرڈاکٹر امجد ثاقب ہیں کہ جنھوں نے جدید اکنامکس کی تاریخ میں بلاسود قرضے دے کر ایک ہلچل مچا دی ہے اور ثابت کر دیا کہ دنیا سود کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔
Alfalah Scholarship Scheme,Convention
پنجاب کے دُور دراز دیہات میں سینکڑوں سکول بنا کر بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے والے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سید عامر جعفری بھی موجود تھے۔ ہر کام جس کے پیچھے اخلاص موجود ہو ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الفلاح سکالر شپ سکیم مخیر لوگوں اور مستحق طلباء و طالبات کے درمیان پُل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سابق ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاصی نے کہا کہ الفلاح سکالر شپ سکیم نے ملک بھر سے نایاب ہیرے چُن کر جن کو دنیا کے لوگ نہیں جانتے اکٹھا کیا اور ان کا مستقبل سنوارنے کے مشن پر گامزن ہے۔ اس پر میاں عبدالشکور اور ان کی ٹیم کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سیّد عامر محمود نے کہا کہ میاں عبدالشکور ،چودھری عبدالمجید، محمد ضیغم مغیرہ اور ڈاکٹر خالد محمودثاقب سمیت یہ سب لوگ خواب دیکھتے ہیں اور صرف دیکھتے ہی نہیں ۔دوسروں کو خواب دیکھنا اور ان کی تعبیر کرنا بھی سکھاتے ہیں۔بلاشبہ یہ بہت بڑا کام ہے۔ پاکستان میں مثبت کام کرنے والے سب لوگوں کی منزل ایک ہے ،خوشحال اور باوقار پاکستان۔ممتاز سکالر اختر عباس نے کہا کہ آج سٹیج پر بیٹھے ہوئے سارے لوگ ٹاٹ سکولوں سے پڑھ کر یہاں پہنچے ہیں جہاں بینچ پورے نہیں ہوتے تھے بوریاں لے جانا پڑتی تھیں ۔یہ لوگ اپنے عمل سے کہہ رہے ہیں کہ جہاں سہولتیں کم ہوں وہاں جلوس اور احتجاج نہیں کیا کرتے ،اپنی صلاحیت بڑھا لیتے ہیں ۔والدین ،ملک اور قوم کا ہر وقت شکواہ کرنے والے لوگ ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں۔
اس کے بعد اخوت کے ڈائریکٹر پروفیسر ہمایوں احسان نے اپنے خطاب میں کہا کہ قرآن کے اُصولوں کو دیکھیں تو اس سے بڑھ کر راہنمائی کی کوئی چیز نہیں لیکن ہم کیسے لوگ ہیں ۔مسلمان دنیا میں وہ واحد قوم ہے جو جھوٹ بولتے ہیں ،دوسروں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اخوت کے تحت گذشتہ 15سال سے18ارب روپے کے بلاسود قرضے 10ملین سے زیادہ لوگوں کو دیئے ۔ہمارا یقین ہے کہ ایلیٹ کلاس ڈیفالٹر ہوتی ہے۔ ہمارے بلاسود قرضوں کی واپسی کی شرح 98.7%ہے۔ ہم نے مواخات کے نظام کو رائج کیا ہے۔ مواخات سب سے بڑی قوت ہے۔ اگر یہ نظام رائج ہو تو مسلمان کبھی بھی مانگنے والے نہیں بن سکتے۔
ریڈ فائونڈیشن کے محمود احمد کہہ رہے تھے کہ سیاہ رات کا ماتم کرنے کی بجائے ہم نے اپنے حصہ کی شمع روشن کرنے کی ٹھانی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ جو فرد بھی اپنے حصہ کی شمع روشن کرتا ہے ،اندھیری رات میں اندھیرا اس کا راستہ نہیں روکتا اور وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک استاداور 25طالب علموں سے جو کام شروع کیا تھا آج 340سکولز، 27کالجز اور 70ہائیر سکینڈری سکول کے 90ہزار طلبہ تک جا پہنچا ہے۔انہوںنے کہا کہ دنیا میں کوئی کام کرنے کے لیے بھی 5چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخلاص، ویژن، عزم، حکمت عملی اور پانچویں نمبر پر وسائل لیکن ہم لوگ پہلے وسائل کا رونا رونا شروع کردیتے ہیں ۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ پیدا ہوئے۔ وہ سارے ہماری طرح ہی کے تھے ۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ دنیا کا مستقبل پاکستان سے منسلک ہے اور پاکستان کا مستقبل ہماری نئی نسل سے منسلک ہے۔
Alfalah Scholarship Scheme,Convention
الفلاح سکالر شپ سکیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خالد محمود ثاقب نے الفلاح کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آج لوگ کہتے ہیں ،حالات بڑے خراب ہیں۔ انسانوں کا انسان پر سے اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ نیکی ،شرافت اور دیانت داری ناپید ہو گئی ہے۔ انسانیت زخموں سے چُور ہے۔ راہبر لٹیروں کا روپ دھار چکے۔ عجب تماشہ ہے کہ اداکار دین سمجھا رہے ہیں اور دین سمجھانے والے باہم دست و گریبان ہیں۔ مایوسی، نااُمیدی اور بے یقینی کے اندھیروں میں دردِ دل رکھنے والے افراد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں رہتے۔ ہمارا عزم ہے کہ ظلم کا نظام کب بدلیں گے ، ہم بدلیں گے تب بدلے گا۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سولہ سالوں میں ہم نے 2711 طلباء و طالبات کو معاشرے کا صحت مند حصہ بنایا۔ تعلیمی سال 2014-15 کے اختتام پر الفلاح سکالرز کی تعداد 1400 ہو چکی ہے جن میں 171 ڈاکٹرز، 331 انجینئرز، 208 ایسوسی ایٹ انجینئرز، 155 ماسٹرز ڈگری ہولڈرز، 206 بی ایس آنرز، 329 گرایجوایٹس ہیں۔ 853 انٹرمیڈیٹ اور 458 سکینڈری سکول کا امتحان پاس کر چکے ہیں۔ جس مقصد کے لیے اس خیر کے کام کو شروع کیا آج اس کے ثمرات کامیاب سابقہ سکالرز کی صورت میں مل رہے ہیں۔ الفلاح سابقہ سکالرز اس وقت مختلف اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جو کہ نا صرف خاندان کی کفالت کر رہے ہیں بلکہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ الفلاح اس کامیابی پر اپنے معاون اداروں، سپانسرز اور ڈونرز کی تہہ دل سے ممنون ہے۔
50ایسے بچے بھی ہیں جو کبھی خود سکالر شپ لیا کرتے تھے آج اپنے جیسے ایک ایک بچے کو سپانسر کررہے ہیں۔5602طلبا ء و طالبات کو اس وقت تک 14کروڑ روپے سے زائد کے وظائف دیئے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود بتا رہے تھے کہ اس سال466الفلاح سکالرز جنھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے ان میں48ڈاکٹرز،111انجینئرز،22ایسوسی ایٹ انجینئرز ،32ماسٹر ڈگری ہولڈر اور 69بی ایس آنرز ہیں ۔اس کے علاوہ 48الفلاح سکالرز نے گریجوایشن اور 136نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔تعلیمی سال2014-15 میں 1113 طلباء وطالبات کو سکالر شپس دیئے گئے جن کا تعلق پاکستان کے مختلف ریجنزسے ہے۔
Alfalah Scholarship Scheme,Convention
ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار امجد اسلام امجد نے کنونشن کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ زندگی کے سفر میں جو لوگ حوصلہ ہار جاتے ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ۔لوگ کہتے ہیں کہ18کروڑ کی آبادی میں دس بارہ ہزار بچے پڑھانے سے کیا فرق پڑے گا۔ ان کو اس بچے کی مثال پر غور کرنا چاہیے جو سمندری لہروں کی وجہ سے ساحل پر آ جانے والی مچھلیوں کو ایک ایک کر کے اُٹھا کر سمندر میں پھینکتا تھا ۔کسی نے پوچھنے والے سے پوچھا تمہارے ایک ایک کر کے مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینکنے سے کیا فرق پڑے گا اُس لڑکے نے ایک مچھلی اٹھائی اور اسے سمندر میں پھینکتے ہوئے کہا کسی کو فرق پڑے یا نہ پڑے اس کو تو فرق پڑے گا۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے الفلاح سکالر شپ سکیم کے پیٹرن انچیف اور صدر الخدمت فائونڈیشن پاکستان میاں محمد عبدالشکور نے کہا کہ پاکستان کا المیہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، پہچانتے نہیں تو پھر دشمن ہمیں ہیروز اور ولن بنا کر دیتا ہے تو ہم ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔دیکھا جائے تو عبدالستار ایدھی کا کام لاجواب ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب جو اُخوت چلاتے ہیں انہوں نے جس سبق کو قرآن و حدیث کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ سود لینے اور دینے والے اللہ کے دشمن ہیں ، کو سننے اور سنانے کی حد سے نکلتے ہوئے محدود وسائل سے 10لاکھ لوگوں کو سود کے چکر سے نکال کر بلا سود معاشی نظام کی عملی مثال قائم کی ۔جناب محمود احمد کا آزاد کشمیر میں سفر کما ل کا سفر ہے۔
کشمیر کی کسی پہاڑی پر چڑھتے جہاں پر 200 گھر دیکھتے وہاں پر سکول قائم کر دیتے ۔آج پورے کشمیر میں ریڈ فائونڈیشن کا جال بچھا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ انشاء اللہ 2025 میں الفلاح سکالر شپ سکیم کے موجودہ سکالرز ہی سٹیج کی زینت بنیں گے۔ کنونشن کے اختتام پر شرکاء کی پر تکلف ظہرانے سے تواضع کی گئی۔الفلاح سکالر شپ سکیم کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے www.alfalahss.orgوزٹ کی جا سکتی ہے۔