فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے الجزائر پر قبضہ کرنے، وہاں کی آٹھ سالہ خونریز جنگ کے دوران لاکھوں افراد کی ہلاکت اور فرانسیسی نوآبادیاتی دور کے مظالم پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔
فرانسیسی صدر کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں الجزائر میں نوآبادیاتی دور کی زیادتیوں کے حوالے سے سرکاری سطح پر معافی مانگے جانے کے امکان کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے، ”الجزائر پر قبضے یا فرانسیسی حکمرانی کو ختم کرنے والی آٹھ سالہ خونریز جنگ کے حوالے سے نہ تو ندامت کا اظہار کیا جائے گا اور نہ ہی معافی مانگی جائے گی۔‘‘
فرانسیسی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب فرانس کے نوآبادیاتی ماضی کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ شائع ہونے والی ہے۔ تاہم صدر ماکروں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرانسیسی رہنما معافی کے بجائے دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دینے کے مقصد کے تحت ‘علامتی اعمال‘ میں حصہ لیں گے۔
الجزائر فرانس کی نوآبادی تھا اور وہاں اپنے قبضے کو طول دینے کے لیے پیرس حکومت نے سن 1954 اور 1962 کے درمیان ایک طویل گوریلا جنگ لڑی۔ فرانس نے انیسویں صدی میں 1830ء میں الجزائر پر قبضہ کیا تھا اور یہ قبضہ 132 سال بعد یعنی 1962ء میں ختم ہوا تھا۔ الجزائر کے حکام کے مطابق اس جنگ میں دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ فرانسیسی مؤرخین کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب رہی تھی۔ ان دونوں ممالک کے مابین چھ عشرے گزرنے کے باوجود تعلقات کشیدہ ہیں۔ الجزائر نے فرانسیسی حکومت سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے ان اقدامات کو ”قتل عام قرار دیتے ہوئے سرکاری سطح پر معافی مانگے۔‘‘
نوآبادیاتی دور کے بعد پیدا ہونے والے ماکروں ایسے پہلے فرانسیسی لیڈر ہیں، جنہوں نے اس قدر کھل کر کہا ہے کہ فرانس معافی نہیں مانگے گا۔ مؤرخین کی رائے میں فرانس کی نوآبادیاتی تاریخ میں الجزائر کی جنگ کی طرح کسی ایک بھی دوسرے واقعے کا اس ملک کی قومی نفسیات پر اتنا گہرا اثر نہیں پڑا۔
ماضی میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے بس یہ تسیلم کیا تھا کہ 1961ء میں پیرس میں الجزائر کے باشندوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس طرح انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اس تاریک ترین واقعے پر پہلی مرتبہ خاموشی توڑی تھی۔ فرانسوا اولانڈ الجزائر کے ساتھ فرانس کے باہمی تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے اور ان کا یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
الجزائر میں آزادی کے لیے شروع ہونے والی تحریک فرانس تک پہنچ گئی تھی۔ فرانس میں مقیم الجزائر کے باشندوں نے اکتوبر 1961ء میں آزادی کے حق میں ایک ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔ اس وقت پیرس میں رات کا کرفیو نافذ تھا۔ اسی وجہ سے پیرس پولیس کے سربراہ نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا تھا کہ کرفیو کی خلاف ورزی کو کسی صورت بھی برداشت نہ کیا جائے۔
تاریخ دانوں کے بقول فرانسیسی پولیس نے مظاہرین کو تشدد کے ذریعے منتشر کرنے کے لیے فائرنگ بھی کی۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے متعدد مظاہرین کو پیرس کے دریائے سین میں بھی پھینک دیا تھا۔ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس واقعے میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اُس وقت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سترہ اکتوبر کی شام صرف تین افراد ہلاک جبکہ چونسٹھ زخمی ہوئے تھے۔ بعدازاں تحقیقات کے دوران دریائے سین سے متعدد لاشیں نکالی گئی تھیں تاہم اس کے باوجود کسی بھی فرانسیسی حکومت نے اس واقعے کی ذمہ داری کبھی قبول نہیں کی۔ فرانسوا اولانڈ اس واقعے کو قتل عام قرار دینے والے پہلے فرانسیسی سربراہ مملکت تھے۔
صدر ماکروں کے دفتر سے جاری کردی بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ برس الجزائر کی جنگ کے خاتمے کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر تین روزہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جن میں حکومتی شخصیات شرکت کریں گی۔