الجزائر: احتجاجی تحریک دوبارہ شروع، ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے

Protest

Protest

الجزائر (اصل میڈیا ڈیسک) الجزائر میں کورونا وائرس کی وجہ سے عائد بندشوں کے ایک برس بعد حِراک تحریک کو ایک بار پھر نئی زندگی مل گئی ہے۔ اسی تحریک کے نتیجے میں سابق صدر عبدالعزیز بوطفلیکہ کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔

حراک احتجاجی تحریک کی دوسری سالگرہ سے چند روز قبل منگل کے روز شمالی الجزائر کے شہر خراطہ میں پانچ ہزار سے زائد افراد جمع ہوئے۔ ملک میں سب سے طویل مدت تک عہدہ صدارت پر فائز رہنے والے عبدالعزیز بوطفلیکہ کو حراک تحریک کے نتیجے میں ہی سن 2019 میں اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔

مظاہرین دارالحکومت الجزائرسے تقریباً دوسو کلومیٹر دور خراطہ شہر میں یکجا ہوئے جہاں دو برس قبل تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ مظاہرین کو امید ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ایک برس تک موقوف رہنے کے بعد وہ اب دوبارہ مظاہرے شروع کرسکیں گے۔

مظاہرے میں شامل نسیمہ نامی ایک خاتون نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہم حراک تحریک کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے آئے ہیں جس کو صحت کے اسباب کی بنا پر روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے ہمیں نہیں روکا تھا۔ ہم نے خود اسے روک دیا تھا کیوں کہ ہمیں عوام کی فکر ہے۔”

مظاہرین الجیریائی قومی پرچم لہرا رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے”فوجی مملکت نہیں بلکہ ایک سویلین حکومت” اور ”گینگ واپس جاو“۔

حراک تحریک سے وابستہ مظاہرین ملک میں سب سے طویل مدت تک صدارت کے عہدے پر فائز رہنے والے عبد العزیز بو طفلیکہ کو اقتدار سے دست بردار کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ تاہم اس کے بعد بھی لاکھوں افراد کا یہ مظاہرہ چلتا رہا۔

مظاہرین الجیریا کے سیاسی طبقہ اشرافیہ کو مکمل طور پر ہٹانے کی مانگ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بوطفلیکہ کے استعفے کے بعد ہونے والے انتخابات محض دکھاوا تھے۔

دسمبر 2019 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں عبد المجید تبون صدر منتخب ہوئے، انہوں نے حراک تحریک کی تعریف کی تھی لیکن کوئی اہم اصلاحات منظور کرانے میں نا کام رہے۔

سی این ایل ڈی پریزنرس نامی گروپ کا کہنا ہے کہ حراک مظاہروں کے سلسلے میں فی الوقت تقریباً ستر افراد جیل میں ہیں۔

احتجاجی تحریک کی ایک نمایاں شخصیت کریم تبون بھی منگل کے روز خراطہ میں ہونے والے مظاہرے میں موجود تھے۔ انہیں ‘قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے‘ کے الزام میں دسمبر میں ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم اس پر عمل در آمد موخر کر دیا گیا تھا۔

حراک ایک ایسی تحریک ہے جس کا کوئی رہنما نہیں ہے تاہم اس کے حامی لاک ڈاون کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ آن لائن تبادلہ خیال اور اسے دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے صلاح مشورے کرتے رہے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے بھی ہوئے ہیں جس کا مقصد 22 فروری کو تحریک کی سالگرہ کے موقع پر ملک گیر احتجاجی مظاہرے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔

خراطہ کے مظاہرے میں شامل حامد نامی ایک شخص نے کہا”یہ ایک انتہائی واضح مقصد کے حصول کے لیے انقلابی عمل ہے۔ ہم موجودہ نظام کو اس کے تمام تر اجزاء کے ساتھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔”

اس تحریک کا مقصد سن 1962 میں فرانس سے آزاد ہونے والے اس ملک کے سیاسی نظام میں ہمہ گیر تبدیلی لانا ہے۔