واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) کارنیگی مرکز برائے مشرق وسطی نے ایرانی لکھاری آرش عزیزی سے ان کی نئی کتاب کے بارے میں طویل گفتگو کی ہے۔ کتاب میں قاسم سلیمانی کی زندگی اور مشرق وسطی میں ایرانی چیلنجوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے :
The Shadow Commander: Soleimani, the US, and Iran’s Global Ambitions
مذکورہ مرکز کے ساتھ طویل انٹرویو میں سلیمانی کی کہانی اور سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے قتل کے لیے سلیمانی کے احکامات کا انکشاف کیا گیا۔
آرش عزیزی نے بتایا کہ “مجھے ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کی دو شخصیات نے اس بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ، یہ دونوں افراد یمن کے حوالے سے ایران کی پالیسی وضع کرنے سے متعلق ہیں۔ ان کے علاوہ حوثی ملیشیا کی قیادت کے ذرائع نے بھی بتایا کہ یہ سب سلیمانی کے مطالبے پر ہوا اور حوثی خود سے اس پر آمادہ ہو گئے۔ میں سلیمانی اور اس کے فیصلہ کرنے کے انداز کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں یہ اقدام اس سے پوری طرح موافقت رکھتا ہے”۔
عزیزی کے مطابق اگرچہ یمن بھیجے جانے والے ایرانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد موجود ہے تاہم تہران کی حوثیوں کے ساتھ شراکت کا حزب اللہ کے ساتھ اس کی شراکت سے کوئی موازنہ نہیں۔ حزب اللہ کو ایران نے خود قائم کیا تھا اور برسوں سے عملی طور پر وہ خود اسے چلا رہا ہے۔ حزب اللہ ابھی تک بڑی حد تک ایرانی پاسداران انقلاب پر انحصار کرتی ہے”۔
ایرانی لکھاری نے مزید کہا کہ “جہاں تک یمن کا تعلق ہے تو یہاں ایران کی شرکت محض ایک ونگ سے زیادہ ہے۔ اس کے دو بنیادی عناصر ہیں : ایک یہ کہ حوثیوں کی مدد کی کوشش تا کہ وہ عسکری طور پر زیادہ مضبوط ہو جائیں۔ دوسرا یہ کہ انہیں زیادہ طاقت ور نظریاتی بنیاد فراہم کرنا”۔
عزیزی نے واضح کیا کہ “میرا نہیں خیال کہ ایران نے یمن میں اپنا نفوذ بڑھانے کے واسطے مطلوبہ وسائل مختص کیے ہیں”۔