اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) کامیابی ایک لمحے میں نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے مسلسل اور کڑی محنت کرنا پڑتی ہے، دہکتی بھٹی میں تپ کر ہی کندن نکلتا ہے۔ معروف راک اسٹار علی عظمت اس کی جیتی جاگتی روشن مثال ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے بچپن کی شرارتوں، نوجوانی کے خواب، جوانی میں کامیابی اور گلوکاری کے سفر میں آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے نوجوان باصلاحیت گلوکاروں کو ٹپس بھی دیں۔
عفت رحیم کے ویب پروگرام ’سے اِٹ آل ود عفت رحیم‘ میں علی عظمت نے مزے مزے کے واقعات سنائے کہ لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر بلند آواز سے گانے گانا اور رات بھر گھومتے رہنا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار اداکار شان کے ساتھ مٹر گشت کرتے ہوئے چارپائی پر خراٹے بھرتے چوکیدار کو جگانے کی ہر کوشش ناکام ہونے پر چارپائی کو اُٹھا کر مرکزی چوراہے پر رکھ دیا اور چھپ کر چوکیدار کے حواس باختہ حالت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
علی عظمت لڑکپن میں جھگڑالو تھے؟ اس سوال پر شرارتی مسکان کے ساتھ علی عظمت نے جواب دیا کہ بدمعاشی تو نہیں کی البتہ مجھ سے چھوٹے عمر کے کزنز مجھے اپنے جھگڑے نمٹانے کے لیے لے جاتے تھے اور میں سامنے والوں پر دوڑ کر چڑھائی کردیا کرتا تھا قبل اس کے کہ وہ مجھ پر حملہ کردیں اور یوں دھاک بیٹھ گئی کہ میں بہت بہادر ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ میں اس وقت خود کتنا ڈرا ہوتا تھا کہ کہیں پھینٹی نہ لگ جائے۔
علی عظمت ’جوپیٹر‘ بینڈ سے پہلے مقامی چھوٹے بینڈز کے ساتھ اسکول، کالجز اور نجی تقریبات میں پرفارم کرتے تھے جس کے لیے انہیں صرف 500 روپے ملتے تھے جس میں 50 روپے کا وہ انڈا پراٹھا کھالیا کرتے تھے باقی کی رقم بچالیتے اور یوں پہلی بار 30 ہزار کی ایک موٹر سائیکل بھی خریدی جس پر اہل محلہ نے کہا کہ ڈکیتیاں مارنے لگا ہے جو اتنے اچھے لباس اور جوتے پہنتا ہے اور اب تو موٹر سائیکل بھی خرید لی ہے۔
بچپن کی یادوں کو شیئر کرتے ہوئے علی عظمت گویا ہوئے کہ وہ پرانا لاہور کہیں کھوگیا ہے، ماں کے ہاتھ کے بنے کھانے، خونی رشتوں کی محبت اور دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح بہت یاد آتی ہے۔ 18 سال کی عمر میں ہی جوپیٹر بینڈ کے ساتھ ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا تو خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔ اس شو میں پہلی بار وائرلیس مائیک استعمال ہوا تھا اور میں پرفارمنس کے دوران ہی اسٹیج سے بھاگتے ہوئے اوپر گیلری میں گیا اور اپنے ماں باپ کو بوسہ دیا۔ پہلا انعام دس ہزار ملا تھا۔
علی عظمت ایک بڑا فنکار ہونے کے باوجود اپنے ماضی پر فخر کرتے ہیں کھلے ڈھلے آدمی ہیں، یہی وجہ ہے عفت رحیم کے سوالات سے گریز کرنے کے بجائے انہوں نے کھل کر اظہار کیا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ ایک بار کسی سے چھینی ہوئی کلاشنکوف گھر لے آئے اور اپنے دادا کی یادگار الماری میں چھپا دی۔ دادی نے الماری کی صفائی دوران کلاشنکوف دیکھی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔
ابتدائی زمانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ میوزیکل بینڈ کے علاوہ کمانے کا ایک ذریعہ اور بھی تھا میں لنڈا بازار جاتا اور کپڑے، جوتے، بیجز وغیرہ نہایت کم قیمت میں لاتا اور اپنے امیر دوستوں کو مہنگے دام میں بیچ دیتا اور منافع کی رقم اماں کو دیتا تو وہ کہتیں آخر تو کرتا کیا ہے ؟ کہیں واقعی ڈکیتیاں تو نہیں مارتا لیکن جب جوپیٹر کے پہلے پروگرام میں اپنے والدین کو بلایا اور اول انعام حاصل کیا تو انہیں پتہ چل گیا کہ ان کا بیٹا کیا کرتا ہے۔
اس موقع پر عفت رحیم نے سوال داغا کہ گانا بجانا ہمارے یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا، جب موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تو اہل خانہ کا ردعمل کیسا تھا؟ جس پر علی عظمت نے بے تکلفانہ انداز میں کہا رشتے داروں نے اپنے گھر آنے سے منع کردیا کہ ہم میراثیوں کو گھر نہیں بلاتے، میں نے بھی کہہ دیا کہ نہیں ملتے تو نہ ملو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ والدین نے ہمت افزائی جاری رکھی کہ بیٹا آوارہ گردی نہیں کرتا، جرائم سے دور ہو یہی کافی ہے۔
موسیقی کا جنون علی عظمت کو لاہور سے کراچی لے آیا، کراچی کو ایک ’ویلکمنگ شہر‘ قرار دیتے ہوئے علی عظمت نے کہا کہ کراچی سب سے الگ شہر ہے اور سب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ میں پینڈو ٹائپ بچہ تھا اور میری انگریزی بہت کمزور تھی جس پر میں شرمندہ نہیں بلکہ محظوظ ہوتا ہوں۔ شعیب منصور سے پہلی ملاقات میں ان کی تعریف کے لیے انگریزی میں دو جملے ایسے کہے جس پر میں آج تک خود پر ہنستا رہتا ہوں۔
وائٹل سائنز سے سلمان احمد کی واپسی اور جنون کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے راک اسٹار نے بتایا کہ اسلام آباد میں وائٹل سائنز سے منسلک لڑکے کسی ایشو پر ایک الگ کمرے میں معاملہ نمٹا رہے تھے۔ وائٹل سائنز نے سلمان احمد کو خیرباد کہہ دیا، سلمان جسے میں پیار سے اخروٹ کہا کرتا تھا، غصے میں کمرے سے باہر آیا کہ کہا تم میرے ساتھ البم میں گانا گاؤ گے اور پھر ہم نے البم تیار کیا۔
آخر میں علی عظمت کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن مواقعوں کی کمی ہے، نوجوانوں کو شارٹ کٹ کے بجائے جدوجہد جاری رکھنا چاہیے، ٹیلنٹ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا اور ایک نہ ایک دن دنیا آپ کو قبول کرلے گی۔