اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پشاور ہائی کورٹ نے شمالی وزیرستان میں پشتون تحفظ موومنٹ اور فوجی اہلکاروں کے مابین تصادم کے بعد گرفتار ہونے والے محسن داوڑ اور علی وزیر کی ضمانت کے لیے دائر درخواستیں منظور کر لی ہیں۔
عدالتی فیصلہ پشاور ہائی کورٹ بنوں بینچ کے جسٹس ناصر محمود نے بدھ کو درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد سنایا۔ سماعت کے دوران عدالت اور اس کے احاطے میں پی ٹی ایم کے قریب ڈھائی سو سے تین سو ارکین موجود تھے۔ ایڈوکیٹ لطیف، ایڈوکیٹ سنگین خان اور ایڈوکیٹ طارق افغان، محسن داوڑ اور علی وزیر کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
حکومتی وکلاء نے اپنے موقف میں محسن اور علی وزیر پر یہ الزامات لگائے کہ یہ دونوں ‘لر او بر‘ کا نعرہ لگارہے تھے جو کہ حکومتی سلامتی اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہے۔ ‘لر او بر‘پشتو زبان کی اصطلاح ہے جو کہ افغانستان اور پاکستان میں آباد پشتونوں کے ایک ہونے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کے معنی ہیں کہ ان دو ممالک میں پشتون ایک ہیں اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں یہ نعرہ عوامی نیشنل پارٹی کے بانی رہنماؤں نے لگایا تھا لیکن بعد میں یہ نعرہ پی ٹی ایم کی پہچان بن گیا۔
بدھ کو کیس کی سماعت کے دوران حکومتی وکلاء نے یہ الزام بھی لگایا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ ، ‘یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘ اور ‘یہ باجوہ ماجوہ اور غفورے‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کے وکلاء کا موقف تھا کہ اس قسم کے نعرے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کے لیے چلائی جانی والی وکلاء تحریک کے دوران بھی لگائے گئے تھے لیکن کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا اس لیے یہ نعرے کسی فرد یا خاص تحریک سے جوڑنا اچھا نہیں۔
’لر او بر‘کے نقطے پر ایڈوکیٹ لطیف خان آفریدی نے علامہ اقبال کے شعر کا ذکر کرتے ہوئے کہا،” نیل سے لے کر تابخاک کاشغر جیسے الفاظ میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی واحدانیت کی بات کی تھی تو کیا وہ بھی نظریہ پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے۔ پی ٹی ایم اراکین نے ‘لر او بر‘ نعرے میں افغانوں کی بات کی ہے نہ کہ افغانستان کی۔‘‘
دس لاکھ نقد ضمانت جع کرانے کے عوض علی وزیر اور محسن داوڑ کی ضمانت منظور کی گئی لیکن یہ فیصلہ دیر سے ہونے کی وجہ سے مچلکے جمع نہ ہو سکے کیونکہ تمام دفاتر بند تھے۔ پی ٹی ایم کے بنوں اور وزیرستان کے اراکین کل بنوں ہائی کورٹ میں پیسے جمع کرائیں گے۔ ضمانت منظور ہونے کے باوجود بھی علی وزیر اور محسن کی رہائی میں دو سے تین دن لگ سکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ہری پور جیل میں قید ہیں اورکاغذی کارروائی میں عموماً دو یا تین دن لگتے ہیں۔
ایڈوکیٹ طارق افغان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومتی ایف ائی آر جھوٹ پر مبنی ہے کیوں کہ فوجی چوکی پر موجود فوجیوں اور پی ٹی ایم اراکین میں تصادم کا واقعہ شمالی وزیرستان میں پیش آیا ہے جبکہ اس واقعہ کی ایف آئی آر بنوں میں درج کی گئی ہے حالانکہ بنوں اور شمالی وزیرستان میں کم از کم 45 سے 60 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
لطیف خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” خر قمر واقعہ میں ہلاک شدگان کے اہل خانہ اور زخمیوں کو حکومت نے 25، 25 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا، جس کا مطلب ہے کہ حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ یہ لوگ بے گناہ تھے تو پھر میرے خیال میں علی وزیر اور محسن داوڑ کو بھی اس مقدمہ میں باعزت بری ہونا چاہیے۔”
ایڈوکیٹ صمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”محسن داوڑ اور علی وزیر کی رہائی کے لیے بنوں میں میٹینگ بلوائی گئی ہے، جس میں رہائی کے بعد ان کا ہری پور جیل سے پشاور اور پھر بنوں تک شاندار استقبال کرنے کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا اور اس استقبال میں پی ٹی ایم کے تمام کارکنوں کو شامل ہونے کی ہدایت دی جائے گی۔‘‘