بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی تحریک آزادی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس یونیورسٹی کو ’منی انڈیا‘ قرار دیا۔
برصغیر پاک و ہند کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی زندگی میں اہم اثرات مرتب کرنے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی صد سالہ تقریبات سے آج منگل کے روز ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی تعمیر و ترقی میں اے ایم یو کے کردار کو سراہا۔ تاہم بعض حلقوں نے وزیر اعظم کی تقریر پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم مودی کو صد سالہ تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کرنے کا فیصلہ خاصا متنازعہ ہوگیا تھا۔ اس کا ایک سبب ہندو قوم پرست جماعت حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کا اے ایم یو کے حوالے سے رویہ اور خود وزیر اعلی کی حیثیت سے گجرات فسادات کے دوران نریندر مودی کا کردار تھا۔
وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کہا ”سماج میں نظریاتی اختلاف ہوتے ہیں۔ یہ فطری بھی ہے۔ لیکن جب بات قومی اہداف کے حصولیابی کی ہو تو ہر اختلاف کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ جب آپ اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ایسی کوئی منزل نہیں جسے حاصل نہ کرسکیں۔” ا نہوں نے مزید کہا، ”اے ایم یو سے بہت سے مجاہدین آزادی نکلے۔ ان سب کے الگ الگ نظریات تھے لیکن جب غلامی سے آزادی کی بات آئی تو تمام کے نظریات ایک دوسرے سے متحد ہوگئے۔”
وزیر اعظم کو مدعو کیے جانے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر انتہائی مایوس کن تھی۔ اسے زیادہ سے زیادہ ان کی انتخابی تقریر کہہ سکتے ہیں۔
سابق رکن پارلیمان اور اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر محمد ادیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے کہا، ”اگروزیر اعظم مودی اے ایم یو کی تاریخ سے اتنے ہی متاثر ہیں تو انہیں کم از کم اپنی پارٹی کو یہ ہدایت کرنی چاہیے تھی کہ وہ یونیورسٹی کے خلاف بیان بازی سے باز رہے اور اپنے اس ممبر پارلیمان کی بھی سرزنش کرنی چاہیے تھی جو یونیورسٹی کا نام تک بدلنے کی مہم چلاتا رہتا ہے۔”
محمد ادیب کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے قول اورفعل میں تضاد ہے۔ ایک طرف تو وہ اے ایم یو کی تعریف کررہے ہیں دوسری طرف ان کی حکومت نے گزشتہ برس یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف عدالت میں حلف نامہ داخل کیا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 1920 ء میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔ اسے سرسید احمد خان نے 1857 ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے قائم کیا تھا۔
وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ حکومت بلا تفریق ذات و مذہب ہر ایک شہری کی ترقی کے لیے یکساں طورپر کام کررہی ہے۔ ” قوم کی ترقی کو اور سماج کی ترقی کوسیاست کے چشمے سے نہ دیکھا جائے۔ لیکن جب ہم ایک بڑے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کچھ عناصر کو اس سے پریشانی ہو۔ ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپناتے ہیں اور ہرطرح کی منفی باتیں پھیلاتے ہیں۔”
اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر محمد ادیب کہتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کبھی بھی ملک دشمن کوئی بات نہیں کہی۔ یہ غالباً واحد یونیورسٹی ہے جہاں ہندوؤ ں سمیت کسی بھی مذہب کے ماننے والے طلبہ سے کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ”اگر یہاں عیدمیلا النبی منایا جاتا ہے تو کرشن جی کا جنم دن بھی منایا جاتا ہے۔”
یونیورسٹی انتظامیہ نے جشن صد سالہ میں وزیر اعظم مودی کی شرکت کو پوری علیگ برادری کے لیے باعث فخر قرار دیا۔
اے ایم یو شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ ممبر انچارج ڈاکٹر راحت ابرار نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم نے اے ایم یو کے تاریخی کردار، اس کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی اور تحریک آزادی میں اس کے رول کو بہت اچھی طرح سے اجاگر کیا۔ اور سب سے بڑی بات انہوں نے یہ کہی کہ اگر بھارت میں کوئی مِنی انڈیا ہے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ یہ پوری علیگ برادری کے لیے خوشی کی بات ہے۔
وزیر اعظم مودی نے تقریر میں کہا تھا، ”اپنی 100سال کی تاریخ میں اے ایم یو نے لاکھوں زندگیوں کو تراشا ہے۔ سنوارا ہے، ایک جدید اور سائنسی فکر دی ہے۔ سماج کے لیے، ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کیا ہے۔”ان کا کہنا تھا کہ کووڈ انیس ہویا کوئی دیگر معاملہ اے ایم یو نے آگے بڑھ کر سماج کی خدمت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
راحت ابرار نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہ وزیر اعظم نے مالی امداد کا کوئی زکر نہیں کیا، کہا کہ انہوں نے یونیورسٹی کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اور جہاں تک اعلان کی بات ہے تو چند ماہ قبل پٹنہ یونیورسٹی اورلکھنؤ یونیورسٹی کی صدسالہ تقریبات میں بھی انہوں نے اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا۔
سابق ممبر پارلیمان محمد ادیب کا تاہم کہنا تھا کہ اگر حکومت کسی مالی امداد کا اعلان کرتی ہے تو یہ کوئی احسان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی رو سے اقلیتی تعلیمی اداروں کو مالی امداد دینا اس کی آئینی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف اس ملک کے مسلمان بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں اور وہی پیسے امداد کے طور پرملتے ہیں۔ حکومت اپنی جیب سے کچھ نہیں دیتی۔
وزیر اعظم مودی نے اعتراف کیا کہ اے ایم یو نے بیرونی ملکوں اور بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو بہتر اور مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی اے ایم یو کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ آج یونیورسٹی میں 35 فیصد طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں جو قابل تحسین ہے۔
خیال رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو 1920 ء میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا۔ اسے سرسید احمد خان نے 1857 ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے قائم کیا تھا۔ اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں دنیا کے متعدد سربراہان مملکت شامل ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھی یہیں سے تعلیم حاصل کی تھی۔