ہم زندہ لاشیں ہیں

Human Rights Watch

Human Rights Watch

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ پڑھنے والے ہرپاکستان پریشان ہے۔تنظیم نے فوری طور پر لشکری جھنگوی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ایک تازہ رپورٹ میں ملک میں ہزارہ اور شیعہ کمیونٹی کے حوالے سے معلومات اور تبصرہ کرتے ہوئے اس صورتحال کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لشکری جھنگوی نے 2008ء سے شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو عام طور سے اور ہزارہ برادری سے متعلق لوگوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا ہے۔ اس گروپ کی قوت میں اضافہ اور لگاتار دہشت گرد حملوں کی وجہ سے کوئٹہ میں آباد 5 لاکھ نفوس پر مشتمل ہزارہ کمیونٹی کے لوگ خوف میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ لوگ آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتے اور نہ ہی کاروبار یا تعلیم حاصل کرنے کی آزادی محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اس رپورٹ کا عنوان ” ہم زندہ لاشیں ہیں” رکھا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے کہا ہے کہ حکومت وقت اور سکیورٹی ایجنسیز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قلیل کمیونٹی کی حفاظت کے لئے فوری طور پر مؤثر اقدامات کرے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تسلسل سے دہشت گردی اور ہلاکت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بیشتر صورتوں میں متعلقہ حکام مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ 62 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں دہشت گردی کے کئی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2008ء سے ہزارہ برادری یا شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر حملے کرنے اور خون ریزی کرنے کے الزام میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن یہ سارے لوگ آہستہ آہستہ رہا کر دئیے جاتے ہیں۔ کسی شخص کو بھی اس معاملہ میں سزا نہیں دی گئی۔ اس صورتحال میں یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ سرکار ملک کی اقلیتی کمیونٹی کا تحفظ کرنے اور ان کے خلاف جنگجوئی میں ملوث گروہوں سے نمٹنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے کہ ہزارہ کمیونٹی خوف و ہراس کی فضا میں زندہ رہنے پر مجبور ہے اور پاکستانی حکام لشکر جھنگوی کی چیرہ دستیوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ افسوسناک اور ناقابل قبول یہ بات ہے کہ پاکستانی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ہزارہ برادری کو زندگی کی حفاظت کے لئے بنیادی معاشرتی اور سماجی آزادیوں سے محروم کرنا درست صورتحال ہے۔

جنوری 2013ء میں کوئٹہ کے ایک سنوکر کلب پر خود کش حملہ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں 70 افراد جاں بحق اور 120 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس سال فروری میں کوئٹہ کی ایک مارکیٹ میں خود کش حملہ میں 84 افراد کو ہلاک اور 200 سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔ یہ سانحات بتاتے ہیں کہ پاکستانی حکام اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ رویہ بزدلانہ بھی ہے اور بین الاقوامی اصول و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی بھی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان پر شیعہ برادری اور ہزارہ کمیونٹی کے تحفظ کے لئے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرنے کے لئے دباو ڈالے۔

اس حوالے سے رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ لشکر جھنگوی کا مطمع نظر شیعہ لوگوں اور ہزارہ برادری پر حملے کرنا اور انہیں ہلاک کرنا ہے۔ بیشتر خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی ذمہ داری بھی یہ گروہ قبول کرتا رہا ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس گروپ کو توڑنے اور اس کی قیادت کو تلاش کر کے سخت سزائیں دینے کے لئے اقدامات کرے۔ کوئی مملکت اپنے ہی شہریوں کے خلاف ہلاکت خیزی کرنے والے گروہوں کو برداشت نہیں کر سکتی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال کا ازسر نو جائزہ لینے اور سرکاری مشینری کے متعلقہ اداروں کو فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ماضی میں طالبان جیسے انتہا پسند گروہ بھی شیعہ مسلک کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے لشکر جھنگوی جیسے گروہوں کو اسلحہ اور دیگر وسائل فراہم ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس گروہ سے متعلق لوگ قبائلی علاقوں میں پناہ بھی لیتے رہے ہیں۔ اب شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن کے نتیجے میں یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ علاقہ ہر قسم کے انتہا پسند عناصر سے پاک کر دیا جائے گا۔ البتہ یہ خبریں بھی تسلسل سے آتی رہی ہیں کہ کوئٹہ کے گرد و نواح میں بعض مدارس لشکر طیبہ کی پناہ گاہیں ہیں اور حکام ان جگہوں کا علم رکھنے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ یہ رویہ اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر اس ٹھکانے کا سراغ لگانا بے حد ضروری ہے جہاں اس ملک کے شہریوں کو مارنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

Taliban

Taliban

ہزارہ برادری کی صورتحال کے بارے میں اس رپورٹ کو پورے خطے میں رونما ہونے والے حالات کی روشنی میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔ عراق میں ایک سنی انتہا پسند گروہ شیعہ حکومت سے برسر پیکار ہے۔ اسی طرح شام میں بھی بشار الاسد کے خلاف جدوجہد کرنے والے کئی گروہ فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں۔ بدنصیبی سے علاقائی طاقتیں مختلف جنگجو گروہوں کو وسائل فراہم کر کے صورتحال کو پیچیدہ اور دشوار بنانے کا سبب بن رہی ہیں۔ ابھی تک پاکستان ان ریجنل تضادات کے اثرات سے محفوظ ہے لیکن ملک میں ہزارہ اور شیعہ اقلیتوں کے عدم تحفظ میں اضافہ کے سبب اس اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ فرقہ وارانہ مسلح تصادم شام اور عراق کے بعد پاکستان کا رخ کرے۔پاکستان کے بیشتر مبصر اس صورتحال کی عالمی سازش کا حصہ قرار دے کر ذمہ داری کو اسلام آباد سے واشنگٹن منتقل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر ہم یہ باور کروانا چاہیں گے کہ ان منفی اثرات سے بچنے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ ملک کی شیعہ برادری خود کو پاکستان میں محفوظ محسوس کرے اور سرکاری اداروں اور سکیورٹی فورسز پر ان کے اعتماد کو زک نہ پہنچے۔اسی طرح بعض عناصر کی طرف سے عالمی تنظیموں کی ناقدانہ رپورٹوں کو بھی عالمی سازش کا حصہ بتانے کا رجحان دیکھنے میں آتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو بھی اسی طرح مسترد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس رپورٹ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پاکستانی اداروں اور میڈیا کی سینکڑوں رپورٹیں صورتحال کی سنگینی کی شہادت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ان حالات میں نیتوں کے حوالے سے غیر ضروری بحث شروع کرنے کی بجائے ناانصافی اور ظلم کے خلاف اقدامات کے لئے قومی رویہ مستحکم کرنے اور اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ