ملک کواسوقت نہ صرف کسی ایک خاص گروہ سے خطرہ ہے بلکہ داخلی انتشاربھی پھن پھیلائے کھڑاہے۔بھتہ خوری ‘ڈکوئوں کے مسلح اور منظم گروہ’مسلکی انتہا پسندی’تنگ نظری اور فرسودہ روایات سمیت متعدد زہریلے عناصر ملکی معیشت کو دیمک کیطرح چاٹ رہے ہیں۔ بلوچستان کے متعدد اضلاع ‘کراچی اور خیبرپختونخواہ کے بعد اب پنجاب کوبھی انتہاپسندی کی بھڑکتی آگ جھلسارہی ہے۔
صدرکے چیف سیکورٹی افسرکی موت اس بات کا عندیہ ہے کہ اگر وہ چیف سیکورٹی افسرکو ابدی نیند سلا سکتے ہیں تو پھر اسکے مرتب کردہ سیکورٹی پلان کو ناکام کرنا ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ حالیہ انتخابات کے بعد تیس روز کے اندر انتہا پسندی کی اکیس وارداتیں ہوچکی ہیں ۔جن میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے دواراکین اسمبلی سمیت 119افرادلقمہء اجل بن چکے ہیں۔
حالیہ انتخابات کے بعد تصویر کا دوسرا رخ اسطرح سامنے آیا کہ تحریک انصاف جوکہ طالبان سے مذاکرات کی حامی ہے خود بھی لہولہان نظر آئی۔ کم وبیش تمام اہل قلم کہہ رہے ہیں کہ طالبان کہ نزدیک تمام جماعتوں کی ایک سی وقعت ہے اور انہوں نے اپنی حامی جماعتوں کو بھی اسی انداز میں ٹریٹ کیا ہے جس طرح کا سلوک اس نے گزشتہ دور میں anp سے روا رکھا تھا۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ تحریک انصاف کو مذاکرات سے دورر کھنے کی خاطر کسی تیسرے فریق نے پیسے کے قاتل ڈھونڈ کر یہ کاروائیاں کروائی ہوں۔
تاکہ امن مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کروا کے پاکستان کو کسی نئی مشکل میں دھکیلا جا سکے۔ ہم ہرگز کسی غیر شرعی اور ماروائے ریاست اقدامات کے حامی نہیں لیکن کسی بھی مسئلہ کو ایک ہی زاویہ سے دیکھنا خود کو دھوکہ دینے کہ مترادف ہے۔ چند دن پہلے عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ بہت سارے مسلح گروہ طالبان کا نام استعمال کرکے اپنے سفلی جذبات کی تسکین کررہے ہیں۔
اب جبکہ وفاقی حکومت نے اسی مسئلہ پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کر رکھی ہے جوکہ مزید فعال کردار ادا کرنے کی خاطر تعطل کا شکا رہے۔ اس ضمن میں ہماری چند گزارشات ہیں۔ :1حکومت پہلے طالبان کے تمام گروہوں کو مذاکرات کی دعوت دے۔ نیز انکا نام استعمال کرنے والوں ‘قوم پرستوں اورباقی تمام انتہا پسندوں کو مذاکرات کی میزتک لے آئے۔جومسلسل مذاکرات کا انکار کریں یالایعنی مطالبات پیش کریں انکے خلاف بھر پووموئثر کاروائی کی جائے۔
People
1: حکومت کوچاہیئے کہ اس مسئلہ کہ حل کیلئے عوامی فورم تشکیل دے کرعوام سے بھی رائے لی جائے کیونکہ جب تک عوام کا ساتھ نہ ہو افواج جدید ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود بالا آخر شکست کھا جاتی ہیں۔ یہ کس طرح اور کیسے ممکن ہے اسکے بہت سے مثبت انداز ہیں ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ کہ قومی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر بلاناغہ ایک ایسا لائیوپ روگرام ہو جس میں عوام کو شامل کیا جائے اوراسکے ساتھ ساتھ لائیو کالز بھی ہوں ۔نیز صدر پاکستان اور وزیراعظم کے ہاں عوامی رائے جانچنے کی خاطر کچھ عرصہ کیلئے عوام سے خط وکتابت کاسلسلہ بھی جاری ہونا چاہیئے۔
:2 جہاں تک بات اختیارات اوروسائل کی ہے تواس ضمن میں ہمیں اپنے سیکورٹی اداروں اور سراغ رساں اداروں کی سائنٹیفک اپ گریڈنگ اور انہیں جدید جمہوری خطوط پراستوارکرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن ‘سیاسی مداخلت اور بوگس بھرتیوں سے پاک کرنا ہو گا تب جا کر وہ اس قابل ہوں گے کہ اپنی پیشہ وارانہ خدمات بھرپور انداز سے انجام دے سکیں۔
3: اہم قدم یہ اُٹھانا ہو گا کہ ملک میں موجود تمام مذاہب اور اسلام کے تمام مسالک کے افراد کو ایک دوسرے کے عقائد کی تضیحک سے سختی سے روکنا پڑے گا۔ اور اسکا واحد حل یہ ہے کہ کسی بھی مسلک ومذاہب کی معتبر ہستیوں کو برا کہنے والوں کیلئے کم ازکم دو سال قید اور جرمانہ کی سزا مقرر کی جائے ۔۔تمام مذہبی تہواروں پر اشتعال دلانے والے مولویوں ‘عوام اورعلماء پر کسی بھی اجتماع میں شرکت کی تاحیات پابندی لگائی جائے۔ ورنہ پرکاہ کو لگی آگ جھونپڑی جلا دیا کرتی ہے(واضح رہے کہ انبیاء اکرام کی گستاخی پرسزائے موت ملا کرتی ہے اور ہم اسکے حامی ہیں )۔
4:تمام مدارس (دینی ودنیاوی)میں ملکی مفادات کی اہمیت اور جہاد اور انتہا پسندی کے فرق کو اجاگر کرنے کیلئے نصاب ترتیب دیا جائے تاکہ دشمن عناصر معصوم طفل مکتب طلباء کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال نہ کر سکیں۔نیزتمام تعلیمی اداروں (بشمول دینی مدارس )کوپابندکیاجائے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف قومی ٹی وی کے پروگرام ہفتہ میں ایک دن آڈیویاویڈیو کسی بھی صورت میں تمام طلباء کے سامنے پیش کریں گے.
5: مسئلہ کشمیر’جغرافیائی اور دفاعی حصار کو مدنظر رکھتے ہوئے دوستوں کی فہرست مرتب کی جائے۔6:دہشت گردی کے کیسز اور پری پلان تیار کرنے کیلئے ایک با اختیار اور منصف ادارے کاقیام عمل میں لایا جائے ۔جو قلیل وقت میں تمام کیسز حل کرنے کا پابندب ھی ہو7 :مہنگائی اور بے روزگاری کوب تدریج کم کیا جائے اور عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نے دینے والے سینکڑوں تاجروں اور جاگیرداروں کے گرد گھیر اتنگ کیا جائے۔ آئی ایم ایف کاشکریہ ادا کر کے مزید قرض لینے سے پرہیز کیا جائے(پرہیز علاج سے بہترہے )۔
Police Station
8: تمام کرائے کی عارضی و مستقل رہائش گاہوں کے مالکان کو اس بات ک پابند کیا جائے کہ وہ متعلقہ تھانے کو کرایہ دارکی اطلاع دیں۔ عارضی کرایہ دار کیلئے قومی شناختی کارڈ جبکہ ایک ہفتہ سے زائد رہائش کیلئے اپنے آبائی علاقے کے تھانے سے مستقل سکونت کی تصدیق کروانا لازم ہو۔ 9:تمام گنجان عوامی مقامات پرکیمرے نصب کیئے جائیں (جو چالو بھی ہوں)۔10:تمام عوام بشمول سیاستدان اپنے اپنے شہداء کی تفریق ختم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے درد کو سمجھیں۔اورحکومت اور ابلاغی اداروں کافرض ہے کہ وہ عوام میں یہ شعور اجاگر کریں کہ اگر آج انکا ہمسایہ ناحق مارا گیا ہے توکل اسکی باری بھی آسکتی ہے۔
11:شرپسند عناصر کو امداد فراہم کرنے والے ممالک سے تعلقات ختم کر کے اس مسئلہ کوبے باکانہ انداز میں اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے۔ نیز غیر سرکاری تنظیموں کا سختی سے آڈٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نقل وحرکت پرکڑی نظر رکھی جائے۔12:انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے سوشل میڈیا پر بھی حکومتی سرپرستی میں آگاہی مہم چلائی جاسکتی ہے۔ یہ ایک سستا اور ہر خاص و عام تک رسائی کا تیز ترین ذریعہ بھی ہے۔
ہم نے اپنی ناقص رائے پیش کردی ۔ممکن ہے ان میں سے کوئی قابل عمل بھی ہواور یہ بھی ممکن ہے کوئی جملہ ساتھی قلم کارسے اختلاف رکھتا ہو مگر ہم سب کا مدعا ایک ہی ہے کہ ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائی جائے۔اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور اسکا نتیجہ خیزحل نکالنے کے ساتھ ساتھ ایک اعلی’بہترین’قابل عمل اور مربوط حکمت عملی ترتیب دے کراس پر فی الفور عمل کریں.کیونکہ ملک اب مزید انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر حکومت اس میں کامیاب ہو گی تویہ آل پارٹیز کانفرنسز کی تاریخ کا نیارخ ہو گا وگرنہ ”گفتند نشستندبرخاستند”کا عمل پہلے بھی کئی بار دہرایا جا چکا ہے۔ خدا کرے اب ایسانہ ہو۔ اور عوام بھی پر امید ہے کہ انکے دیئے گئے مینڈیٹ کاخیال رکھاجائے گا(خُدا کرے ایساہی ہو)۔