سری نگر (جیوڈیسک) بھارت کے زیر انتظام ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر میں پولیس نے کل جماعتی حُریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ عمرفاروق کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ ریاست کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے اور ریاست میں جاری تالا بندی ( لاک ڈاؤن) کا دفاع کیا ہے۔
میرواعظ عمر فاروق کو سری نگر کے نزدیک ایک پُرامن مظاہرے کی قیادت کے لیے گھر سے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ان کے ایک قریبی معاون نے بتایا ہے کہ پولیس نے انھیں گرفتار کرنے کے بعد سری نگر میں واقع ہائی سکیورٹی زون چشمہ شاہی میں منتقل کردیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ اور بیس روز سے ایک حریت پسند نوجوان برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور ان میں بھارتی فورسز کی کریک ڈاؤن کارروائیوں میں مرنے والوں کی تعداد اڑسٹھ ہوگئی ہے۔ہفتے کے روز ایک پولیس کانسٹیبل بھی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا ہے۔
ریاست کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد کشمیر میں نافذ کرفیو کا دفاع کیا ہے جس کے نتیجے میں تعلیمی ادارے ،دکانیں اور بیشتر بنک بند ہیں۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”کرفیو کا بنیادی مقصد نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانا تھا۔اگر ہم کرفیو نافذ نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟”
انھوں نے کہا کہ ”حکومت ہر اس شخص سے مذاکرات کے لیے تیار ہے جو مسئلہ کشمیر کا ڈائیلاگ کے ذریعے پُرامن حل چاہتا ہے”۔محبوبہ مفتی نے پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”میں پاکستان کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اگر اس کو کشمیریوں سے کوئی ہمدردی ہے تو اس کو نوجوانوں کو پولیس اسٹیشنوں پر حملوں کے لیے نہیں اکسانا چاہیے اور نوجوانوں کو ہلاک ہونے سے بچانا چاہیے”۔
مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے جمعے کے روز احتجاج کرنے والے ایک نوجوان کو گولی مار کر شہید کردیا تھا اور ایک نوجوان کی دریا سے نعش ملی ہے۔پولیس نے گذشتہ روز بھارت مخالف مظاہرے میں شرکت پر اس نوجوان کا پیچھا کیا تھا اور اس دوران ممکنہ طور پر اس کو ہلاک کردیا تھا۔
پولیس سپرنٹینڈنٹ رئیس محمد بھٹ نے کہا ہے کہ ”نامعلوم مسلح افراد نے پلوامہ کے علاقے میں ایک پولیس کانسٹیبل کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے۔اس وقت وہ اپنے گھر سے باہر نکل رہا تھا”۔ایس پی کا کہنا ہے کہ ہمیں وہاں جنگجوؤں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔
پوری وادیِ کشمیر میں 8 جولائی سے حریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی فورسز کی ایک کارروائی میں شہادت کےخلاف پُرتشدد احتجاج جاری ہے۔قابض حکام کی چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاج کے دوران جھڑپوں،اشک آور گیس کے گولے لگنے اور فائرنگ سے چار ہزار کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ان میں سے بہت سے افراد کی آنکھیں بھارتی فورسز کی غیرمہلک ہتھیاروں سے چلائی گئی گولیوں سے متاثر ہوئی ہیں اور احتجاج کے دوران زخمی ہونے والوں کو اسپتالوں سے بھی گرفتار کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کے بھارت کے خلاف غیظ وغضب میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی قیادت میں ایک علاقائی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہوئی ہے لیکن وہ کشمیریوں کے تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کو بھارت میں کشمیریوں کے خلاف ریاستی طاقت کے بے مہابا استعمال پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ریاستی حکام کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال کررہے ہیں۔انھوں نے ریاست کے بیشتر شہروں اور قصبوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کو بھی معطل کررکھا ہے۔