تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا جب تک اللہ پاک کی ذات ِعالیہ کا خصوصی کرم وفضل نہ ہو تب تک” محبت رسول اللہ ” نصیب نہیں ہوتی۔ جب تک شہنشاہِ دوجہاں جنابِ رسالت ۖ کی ”محبت ِ کاملہ”نہیں مل جاتی تب تک آدمی صاحب ِ ایمان نہیں بن سکتا! خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے ہرے بھرے ہوگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے)۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ) حضرت آمنہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی)۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91) ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص (رضی اللہ عنہ) کی والدہ فرماتی ہیں، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں)۔ (سیرت حلبیہ ج 1 ص 94، خصائص کبری ج 1 ص 40، زرقانی علی المواہب 1 ص 114) اللہ پاک نے اپنے بندوں کو بتایا اور احساس جتایا ہے کہ اس نے اپنے محبوب کو بے حد نرم دل اور شفیق و مہربان بنایا ہے، وہ اپنی امت کے لئے سراپا رحمت و کرم ہیں، اس کی تکلیف، کسی بھی قسم کی سختی اور شدت انہیں ناگوار گزرتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
”یہ اللہ پاک کی خاص رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں”۔(آل عمران: 159) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
”بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے، عظیم الشان رسول تشریف لائے، جو چیز تمہیں مشقت میں ڈالے، وہ انہیں بہت ناگوار گزرتی ہے تمہاری بھلائی کے بہت ہی متمنی ہیں۔ مومنوں پر بہت ہی مہربان و رحیم ہیں”۔(التوبة: 128) پیارے میٹھے مدنی آقا ۖ کی محبت اپنی اُمت کے نیک پارسا متقی لوگوں پر ہی نہیں تھی بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر میں پیدا کردہ اسی شفقت و رحمت کا اثر تھا کہ صرف نیک اور پرہیزگار، متقی اور صاحبِ ایمان لوگ ہی نہیں بلکہ گناہ گاروں پر بھی نظر کرم تھی تاکہ وہ رحمت و مغفرت سے محروم نہ رہیں اور فرمانبرداروں کے ساتھ وہ بھی رحمت میں سے حصہ حاصل کر لیں۔
Muhammad PBUH
چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے شفاعت اور نصف امت جنت میں داخل کرنے کے درمیان اختیار دیا گیا، (کہ چاہے تو آدھی امت بخشوا لیں، چاہے شفاعت کا اختیار لے لیں) میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا ہے۔ (اے میرے غلامو!) کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ صرف متقی لوگوں کے لئے ہے؟ نہیں، یہ گناہوں اور خطاؤں کی گندگی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے لئے ہے”۔ (ابن ماجہ، کتاب الزھد) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری امت پیاری ہے، خواہ وہ گناہ گار ہی ہو، اسی لئے شفاعت کو اختیار فرمایا تاکہ انہیں بھی بخشوایا جا سکے۔ اگر آدھی امت کو بخشوا لیتے تو باقی آدھی امت کدھر جاتی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بے یار و مددگار چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ ایک ہم مسلمانوں میں ایسی خوبی ہے جو تاجدار مدینہ کے دور سے لیکر آج تک اور آج سے لیکر قیامت تک قائم و دائم رہے گئی ، یہ محبت اس امت کا سرمایہ حیات ہے اور شاید امت میں زندگی کی جو رمق باقی ہے وہ بھی اسی کے دم سے ہے۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) سے لے کر آج تک امتِ محمدیہ کے کسی ادنیٰ واعلیٰ نے اگر کبھی کسی چیز پر مصالحت نہیں کی تو وہ صرف اور صرف محبت رسول ہے ! سبحان اللہ اور اس کی وجہ محض نسلی یا تاریخی تسلسل نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی مضبوط پشت پناہی ہے۔ اللہ جل شانہ نے رسول اکرم کی محبت کو اپنی محبت سے جوڑ دیا ہے چنانچہ فرمایا ”کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تومیری تابعداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”۔ مسلمانوں کے لیے اپنے نبی بلکہ سب انبیا کی محبت محض عقیدت نہیں بلکہ ایمان کامسئلہ ہے اور یہی محبت ایمان کی سچائی کیلئے دلیل ہے۔ ارشاد نبوی کا مفہوم ہے کہ ”کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کی جان اور ماں باپ و اولاد سے اور سارے لوگوں سے اسکو زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں” (بخاری) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ: ”اے اللہ کے پیغمبر! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب تک میں تجھے تمہاری ذات سے بھی زیادہ محبوب نہ بنوں، تم کامل مرتبہ ایمان تک نہیں پہنچ سکتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ: ابھی تو اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہو چکے تو آنحضرت نے فرمایا ابھی کامل مرتبہ ایمان تک تم پہنچ چکے ہو اے عمر ” (بخاری شریف ) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے پیغمبر! اللہ کی قسم، آپ مجھے اپنی جان سے اور اپنے گھر والوں سے اور اپنی اولاد سے زیادہ محبوب ہیں، اور میں گھر میں ہوتا ہوں، اچانک آپ کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں ہوپاتا جب تک حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں، اور جب میں یہ سوچتا ہوں کہ آپ بھی وفات پائیں گے اور میں بھی، لیکن آپ تو نبیوں کے ساتھ جنت کے بلند درجہ میں داخل ہوجائیں گے، اور میں کم درجے میں، تو ڈر ہے کہ آپ کو نہ دیکھ سکوں گا۔ اس استفسار پر نبی اکرم خاموش رہے یہاں تک کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس آیت کیساتھ اترے،”’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردارہو تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا۔وہ انبیا اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں۔
Allah
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ لوگوں کی رسول اللہ سے کتنی محبت تھی؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ”اللہ کی قسم! وہ توہمیں اپنے مالوں سے اوراپنی اولاد سے اور اپنے ماں باپ سے اور پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے”(الشفا)حضرت زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہ کو جب قریش نے قیدی کیا تو ابو سفیان نے ان سے کہا کہ: اے زید! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کہ: کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تم اپنے گھر میں رہو اور تمہارے بدلے محمد (نعوذ باللہ) قتل کیے جاویں۔ زید (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ ”اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نھیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایک کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر میں رہوں۔” ابو سفیان نے کہا کہ اللہ کی قسم، میں نے اصحاب محمد سے زیادہ کسی قوم کو اپنے ساتھی سے اتنی محبت کرنے والے نھیں دیکھا۔(الطبقات الکبری لابن سعد)واقعہ ہجرت کے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے پیغمبر! قیامت کی گھڑی کب آئیگی؟ تو آنحضرت نے فرمایا کہ تم نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ: تیاری تو کوئی خاص نہیں بس اللہ کی اور اس کے رسول کی محبت ہے، تو آنحضرت نے فرمایا کہ تم قیامت میں انھیں کے ساتھ ہوگے جن سے تمہیں محبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم صحابہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نھیں ہوئے جتنا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اس بات پر خوش ہوئے۔حضرت انس نے فرمایا کہ: میں تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، اور ابوبکر اور عمر سے، اور مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ ملوں گا اگرچہ ان کی طرح عمل میں نے نھیں کیے۔ (مسلم) کسی عاشق رسول کا کلام اسی کے نام ۔۔۔۔محبت سے پڑھ کر ایمان تازہ کریں !
جس دل کو عشق مصطفی گوارہ نہیں ہے جہاں میں کہیں بھی اس کا گزارہ نہیں ہے آپ کے عشق میں کٹ جاے گردن میری یہ سودا ہے ایسا جس میں خسارہ نہیں ہے دنیا کے حسین منظر کیا بتاتے ہو مجھے در مصطفی سے حسیں کوئی نظارہ نہیں ہے جس کے دل میں عشق مصطفی نہیں ہے قسم رب کی وہ بندہ رب کا پیارا نہیں ہے
آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں ، اللہ پاک کا ہم پر خصوصی کرم و فضل ہیں جو ہم کو ” اُمت محمدیہ ” عطا فرمائی، اور یہ میرے مالک رب العذت کا ”خصوصی”انعام و اکرام ہیں جو ہم کو ” آقاۖ” سے محبت اور حقیقی محبت ” عطا فرمائی، میرا ایمان ہے ” نبی کریم ۖ” کی محبت سے ہی ” دنیا اور آخرت ” میں ہمارا بیڑا پار ہے بحثیت امت ہمرا بھی فرض ہے کہ سچی امت بن کر رہے اور فرمانبردار بنے، جس کا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے اور جس مقصد کے لئے تشریف لائے ہیں، صرف منہ زبانی امت بننے کی کوشش نہ کرے۔