تحریر: نعیم الرحمان شائق رات کے گہرے سناٹے میں اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ کبھی دائیں کروٹ لیتا اور کبھی بائیں طرف مڑ جاتا۔ دراصل اس کا ذہن منتشر تھا۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن سو نہیں پا رہا تھا ۔ذہن خیالات کی آماج گاہ بن جائے تو نیند کہاں سے آتی ہے۔ کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا ، فریج کے پاس گیا ، وہاں سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی ، گلاس میں اپنی ضرورت کے مطابق پانی انڈیلا اور پی لیا ۔ پانی پینے کے بعد اس کی زبان سے بے ساختہ “الحمد للہ ” کا کلمہ ِ خیر نکلا ۔ اس کلمہ ِ خیر نے اس کی سوچ کا زاویہ یک سر تبدیل کر دیا ۔ وہ “الحمد للہ ” کے بار ے میں سوچنے لگا ۔ ویسے الحمد للہ کا مطلب ہوتا ہے ، “سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں “۔ لیکن یہ ایک کلمہ ِ شکر ہے۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے۔
وہ سوچنے لگا ، دیکھا جائے تو انسانی زندگی کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پر ہے۔ ہم دن میں رب تعالیٰ کی کتنی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، ہمارے دستر خوان مختلف کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ ہمیں پیاس لگے تو ٹھنڈا پانی حاضر ہوتا ہے۔ ہمیں بھوک لگے تو ہر قسم کا کھانا موجود ہوتا ہے ۔کہیں جانا ہو تو سواری مل جاتی ہے ۔ سونا ہو تو نرم و گداز بستر میسر آجاتا ہے۔ رب تعالیٰ نے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے دیے ہیں ۔ رہنے کے لیے عالی شان گھر دیا ہے ۔غرض ہر طرح کی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا۔ یہ رحمتیں اور نعمتیں محدود نہیں ، لا محدود ہیں ۔ ہم ان نعمتوں اور رحمتوں کو شمار بھی نہیں کر سکتے ۔ اگر یہ نعمتیں اور رحمتیں ایک لمحے کے لیے روک دی جائیں تو شاید ہمارا جینا محال ہو جائے ۔ لیکن ہم ان نعمتوں اور رحمتوں کے بدلے میں ایک کلمہ ِ شکر بھی ادا نہیں کرتے ۔ نادانستہ طور پر زبان سے شکر کے کلمات نکل جائیں تو نکل جائیں ۔ لیکن دانستہ طور پر ہم ایسا نہیں کرتے ۔ رب تعالیٰ کے بہت ہی کم بندے ایسے ہیں ، جو ہر لمحہ رب تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں پر زبان ِ حال وقال سے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔
Allah
اب وہ دن کو پیش آنے والے واقعات کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ دیکھتا ہوں ایک دن میں کتنے لمحات ایسے آتے ہیں ، جن میں اللہ کی رحمت اور نعمت ساتھ نہ دیتی تو کام بگڑ جاتا۔ عام نعمتیں تو الگ سے ہیں ، جن پر ہر لمحے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔لیکن کچھ خاص لمحات بھی ہوتے ہیں ، جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بھی خاص ہوتی ہیں۔ اس لیے انسان کو ان مواقع پر خاص طور پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ اب اس کے ذہن میں دن کے واقعات تازہ ہونے لگے ۔ وہ صبح کو اٹھا۔ نماز ِ فجر ادا کی ، دفتر میں جانے کی تیاری کی ، ناشتا کیا۔ پھر اپنے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر دفتر کو روانہ ہو گیا۔ ہمارے ملک میں ٹریفک کے قوانین پر بہت کم لوگ عمل کرتے ہیں ۔ خصوصا بڑی گاڑیا ں ۔ شاید بڑی گاڑیوں کی وجہ سے ہی حادثات زیادہ ہوتے ہیں ۔
موٹر سائیکل چلاتے ہوئے وہ صرف آج نہیں ، روزانہ گاڑیوں سے بچ جاتا تھا ۔ آج بھی وہ تین چار بار بچ گیا ۔ ایسے مواقع پر وہ گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو کوستا ہوا آگے بڑھ جاتا ۔ آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔ لیکن اب رات کو اسے احساس ہوا کہ ایسے مواقع پر تو اسے اللہ تعالیٰ کا خاص شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس کی جان بچا لیتا ہے ۔ لیکن وہ اپنا وقت صرف ڈرائیوروں کو کوسنے میں صرف کر دیتا ہے ۔ بہر حال غصہ بھی انسانی فطرت میں شامل ہے ۔ اس کی زبان سے ایک بار پھر “الحمد للہ ” کا کلمہ ِ شکر ادا ہوا۔
دفتر میں داخل ہوتے ہی اس نے بڑی مہارت سے اپنا کام شروع کر دیا ۔ وہ اپنی کمپنی کے پڑھے لکھے آدمیوں میں شمار ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسے اپنے کام میں خاص مہارت حاصل تھی۔ کام کے دوران اکثر لوگ اس سے اپنے مسائل شئیر کرتے ۔ اور وہ چٹکی میں ان کے مسائل حل کر دیتا ۔ آج بھی ایسا ہی ہوا ۔ اس کے پاس لوگ آتے گئے اور وہ ان کے مسائل حل کرتا گیا ۔ پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے باس بھی اس کی عزت کرتا تھا ۔ اس نے سوچا: پڑھا لکھا ہونا بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
Educated
کتنے لوگ ہیں ، جو پڑھے لکھے نہیں ہیں ۔ دور کیا جائیں ، اپنی کمپنی میں ہی بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ۔ میں پڑھا لکھا ہوں ، اس لیے لوگ میری عزت کرتے ہیں ۔ اور میں کام بھی صحیح طور پر کرتا ہوں ۔ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے ۔ اس کی زبان سے ایک بار پھر “الحمد للہ ” کا کلمہ ِ شکر ادا ہوا۔
شام کو وہ گھر صحیح سلامت واپس آگیا ۔ اس کا گھر بھی صحیح سلامت تھا ۔ اس کے بچے بھی صحیح سلامت تھے ۔ حالاں کہ اس کا علاقہ ایک خطرناک علاقہ سمجھا جاتا ہے ۔ وہاں آئے روز لاشیں گرتی ہیں۔ فائرنگ ہے کہ تھمتی نہیں ۔اس کے علاقے کے کئی بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کے گھر کا کوئی نقصان ہوا ۔ اس کے گھر کو ایک آنچ بھی نہیں آتی ۔
Children Schools
اس کے بچے باہر گلیوں میں کھیلتے رہتے ہیں ۔ اسکول جاتے ہیں اور مدرسہ جاتے ہیں ۔ مگر واپس بھی آجاتے ہیں ۔ بے شک یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ تھی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی رحمت پر کبھی کلمہ ِ شکر ادا نہیں کیا تھا۔ اس کی زبان سے ایک بار پھر “الحمد للہ” کا کلمہ شکر ادا ہوا۔ اسے جمائی آئی۔ یعنی اب نیند اس کے سر پر منڈلانے لگی۔ وہ بستر پر جا کر سو گیا۔ کچھ دیر بعد زور دار خراٹے لینے لگا۔