تحر یر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا اللہ تعالیٰ کی ذات ِ بابرکت کا ارشاد گرامی ہے ! ترجمہ اے محبوب ۖ اگر میرے بندے کوئی گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کر لیں، تو انہیں چاہیے کہ وہ آپ کے حضور پیش ہوں،پھر وہ خدا کے دربار میںتوبہ استغفار کریں۔ اور رسول ۖ بھی ان کے لئے دعا مغفرت فرمادی ں۔تو یقیناً وہ لوگ اللہ کو بہت زیادہ بخشنے والہ اور رحم فرمانے والہ پائیں گئے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد نبی آخر الزماں جنابِ محمد ۖکی فضیلت پر مہرِثبت کرتا ہے۔۔۔ کہ آپ ۖ جیسا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے اگر ہم دین اسلام جو رسالتِ مآب ۖ نے ہمیں دیا ہے اس پر عملدرآمد بلاچوں چاںکریں، افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہم عشقِ رسول ۖ کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور عمل نہیں کرتے، آجکل گستاخِ رسول ۖ گستاخَِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ عام ہو رہے ہیں۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں یہ شیطان کے چیلے ہنددؤں اور یہودونصریٰ کے ٹکروں کی خاطر اپنی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کر رہے ہیں۔دنیا میں بھی ذلت تباہی بربادی ان کا مقدرہیں اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ تاریخِ اسلام کا ایک مشہور واقعہ مجھے یاد آگیا ہے پہلے وہ عرض کردوں پھر اس آیت مقدسہ کو سمجھنے میں آسانی ہوگئی،
Muhammad PBUH
جیسا میرے اور آپ کے آقا ۖ نے اعلان نبوت فرمایا تو انسانوں کی تین جماعتیں بن گئیں، یہ تینوں جماعتیں کون کون سی ہیں قرآنِ کریم نے ایک جماعت کا نام مومنین، دوسری جماعت کا نام کافرین اور تیسری جماعت کا نام منافقین بتایا۔ ایک منافق بِشراور ایک یہودی کا اختلاف اور جھگڑا ہوگیا،اور یہودی نے بِشر سے کہا چلو میں تمھارے رسول ۖ کو حاکم مان لیتا ہوں اُن سے فیصلہ کروا لیتے ہیں جو وہ فیصلہ کریں گئے مجھے منظور ہوگا،بِشر منافق بڑا چال باز اور پرانا گھاگ تھا کہنے لگا نہیں ہم رحمت عالم ۖ کو اپنا حاکم اور پنچ تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ منافق جانتا تھا اللہ پاک کے پیارے نبی ۖ اپنے حقانی فیصلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیں گئے،اس لئے منافق نے کہا تم کعب بن اشرف یہودی کے پاس فیصلہ کے لئے چلو جو تمام یہودیوں کا گُروگھنٹال ہے۔بِشر منافق کو یہ امید تھی کہ وہ کعب بن اشرف کو رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کروا لے گا،مگر جب یہودی نے ضد کر لی کہ فیصلہ تاجدارِمدینہ سرور سینہ ۖ سے ہی کروانا ہے تو منافق بِشر نے مجبوراً نبی کریم ۖ کو حاکم تسلیم کر کے فیصلہ کروانے کی حامی بھر لی۔
جب دونوں دربار نبی ۖ میں حاضر ہوئے تو سرکار مدینہ نے ڈگری یہودی کے حق میں کر دی کیونکہ یہودی حق پر تھا۔اور یہودی نے اس حقانی فیصلے کو دل سے قبول کر لیا ۔مگر بِشر منافق کی رگ ِ منافق پھڑک اُٹھیاور فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگا میں اس مقدمے کا فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کراؤں گا، یہودی اس پر بھی راضی ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت عمر بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی حق سے ہٹنے والے نہیں ہو سکتے اسی لئے یہودی کو عدلِ فاروقی پر پورا پورا اعتماد تھا۔
Hazrat Umar
یہودی اور منافق دونوں حضرت عمر فاروق کے دروازے پر پہنچ کر مقدمہ دائر کیا اور یہودی نے یہ بھی عرض کر دیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ دربار رسولۖ سے میرے حق میں ہو چکا ہے، جناب ِ حضرت فاروقِ اعظم نے منافق سے پوچھا کیا واقعی اس کا فیصلہ جناب حضرت محمد ۖ نے کر دیا ہے ، منافق بِشر نے اقرار کر لیا کی سرکارِدوجہاں نے اس مقدمے کا فیصلہ فرما چکے ہیں، یہ سنتے ہی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم ادھر ہی ٹھہرو میں گھر سے ہو کر آتا ہوں اور ابھی ابھی اس کا فیصلہ کر دیتا ہوں ، پھر کسی جگہ اپیل کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، آپ گھر گے اور فوراًننگی تلوار لے کر جلال میں بھرے اور غیظ و غضب میں بپھرے ہوئے باہر نکلے اور منافق بِشر کی گردن پر ایسا وار کیا کہ گردن جسم سے کٹ کر دور جا گری۔اور حضرت عمرِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودی سے فرمایا تم جاؤ اس مقدمے کا یہی فیصلہ ہے،جو میں نے کر دیا ہے۔ یہودی اس حقانی فیصلہ سے متاثر ہو کر گھر چلا گیا مگر مدینہ کی سر زمین پر تہلکہ مچ گیاکہ حضرت عمر نے ایک کلمہ گو کو تلوار سے قتل کر دیاہے۔ بِشر منافق کے رشتے دار اور اس منافق پارٹی کے لوگ رسول برحق ۖ کے دربار میں اس منافق کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تیار ہو کر آگئے اور قصاص کے طلب گار ہوئے حلف اُٹھا اُٹھا کر قسمیں کھانیں لگے کہ شر کی نیت میں کوئی فتور ، شک نہیں تھا وہ سچا پکا مسلمان تھا ۔منافقین اللہ کے نبی ۖ کے دربار میں اپنی منافقانہ بازیگری کا یہ شرم ناک ناٹک کھیل رہے تھے اللہ پاک کی ذات نے قرآن میں کچھ اس طرح زکر فرمایا ہے۔
ترجمہ یعنی کیا (اے محبوب ۖ)آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لائے اس کتاب پر جو آپ ۖ پر اتاری گئی ،اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئیں، پھر چاہتے ہیں کہ شیطان (کعب بن اشرف )کو اپنا پنچ بنائیں حالانکہ ان لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھاکہ اس کو بلکل ہی نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ ان کو دور کی گمراہی میں ڈال دے
دوسری جگہ ارشاد خدا وندی ترجمہ
اور جب ان لوگوں سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور اس کے رسول ۖ کی طرف آؤتو آپ دیکھیں گئے کہ منافق لوگ آپ سے منہ موڑکر پھر جاتے ہیں
اللہ پاک کا ارشاد ترجمہ ،
تو ان کا کیا حال ہوگا،جب ان پر کوئی مصیبت پڑجائے، ان کے کرتوتوں کے بدلے میں جو ان کے ہاتھوں نے پہلے کیا ہے، پھر اے (محبوب ۖ )یہ لوگ آپ کے حضور حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا مقصود بھلائی اور میل ملاپ تھا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہیں ترجمہ
ان کے دلوں کی بات تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے لہذا(اے محبو ۖ)آپ ان لوگوں سے چشم پوشی کیجئے اور ان لوگوں کو نصیت فرماتے رہئیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ہر رسول کو اسی لئے بھیجا تاکہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ بہت بڑی آن و شان ہے پیارے نبی ِمصطفےٰ ۖکی دعا ہے اللہ پاک پیارے نبی غفور و رحیم ۖ کے صدقے ہم پر رحم فرمائیں۔ آمین ثم آمین