تحریر: شاہ بانو میر وہ جو سب کی نگاہوں کا مرکز تھی ‘ بالوں کو ادائے بے نیازی سے یوں جھٹکا دیتی کہ کالج میں دور دور کھڑی لڑکیاں اس کے ریشم جیسے بالوں کی چمک سے نگاہوں کو خٍیرہ ہوتے محسوس کرتی – عجب سی بے نیازی تھی اس کے وجود میں عجب سے بے پرواہی تھی – اس کی سوچ میں سب سے دور ہوتے ہوئے بھی ہر کسی کو دل کے قریب محسوس ہوتی اس کا لباس وہی تھا جو ہر لڑکی کا تھا لیکن اس کے لباس کی بناوٹ اس کے باریک پنسل ہیل والے امپورٹڈ کوٹ شوزاسکے ڈائنا کٹ بال اور اس کی خوش اخلاقی راہ چلتی لڑکی بھی دیکھتی تو مختصر سی بات میں یونہی سوچتی کہ پرانا تعلق ہے۔
استادوں کی چہیتی تقریر ہو یا تحریر کھیل ہو پڑہائی ہر شعبہ میں ملکہ حاصل تھا اسکو اس کا یہ دور سب نے دیکھا حسین و جمیل چہرہ کھیلنے کے بعد لال بھبھوکا ہو کر کئی لڑکیوں کو حسد میں مبتلا کر دیتا کہ آخر ہر خوبی اس کو ہی کیوں عطا کی گئی – لیکن یہ شائد قدرت کے دھیمے دھیمے فیصلے ہوتے جن کو خود وہ انسان بھی نہیں سمجھ سکتا- وقت بدلتا ہے قدرت ہربا نصیب لڑکی طرح اس کو بھی اس کے گھر روانہ کرتی ہے ناز و نعم میں پلی ہوئی الہڑ شوخ لڑکی نجانے زندگی کے سفر میں والدین کی جانب سے پسند کو اپنا لیتی ہے
Bringing up
حرف شکایت زباں پر نہیں لاتی اور نبھاہ کا نیا دور شروع ہوتا ہے -جس میں ہرلحظہ اپنی انا کو قربان کرتے ہوئے اپنے پندار کو ٹھیس لگتے دیکھ کر اپنی سوچ کو قتل کرتے ہوئے کوشش کرتی ہے – وہی روایتی بیوی سے بلند درجہ پاتے ہوئے ماں بن کر تمام محرومیوں کو بچوں کی فرشتوں جیسی مہک میں چہرہ چھپا کر بھول جائے رویہ بدلتا ہے لباس میں قدرے ڈھیلا پن اور سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے بال اب کلپ میں مقید چہرے کو اور زیادہ جاذب نظر بنا دیتا ہے -بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریاں گویا اس کا ماضی اس سے چھین لے جاتا ہے اور انداز محتاط ہو جاتا ہے۔
بچوں کی نشونما کے ساتھ اب پڑہائی اور ان کی دیگر ضروریات اور بڑہتے ہوئے گھریلو اخراجات تفکر کا ہالہ اس کے چہرے کے گرد نمایاں دکھاتے ہیں – سوچ کی گہری لکیر پیشانی پے دکھائی دیتی ہے قہقہے بعد میں مسکراہٹ میں تبدیل ہوئے اور اب گہری خاموشی میں کچھ وقت مزید گزرا سوچ نے گویا نیا راستہ دیکھا ہمیشہ انگلیوں سے بالوں میں کھیلنے والی کہ سر پے دوپٹہ نظر آیا کچھ دنوں کی بات ہے پھر کوئی نیا انداز ہر ایک نے اسکے ماضی سے یہی سوچا مگر بالوں کو دوپٹے نے ڈھانپا تو گویا مستقل ذات کا حصہ بن گیا اور مستقل ٹھہر گیا دوپٹہ علامت بنا کہ عمر کا وہ حصہ آگیا کہ سب کو چھوڑ کر صرف ایک ہی ہستی کو مرکز نگاہ بنا لیا اب جو وہ چہرہ دیکھوں تو سکون ہی سکون ہے
Allah
ہر پریشانی ہر سوچ سے بالاتر بات سنوں تو اطمینان ہی اطمینان ہے انداز دیکھوں شکر کی صاف شفاف دعا ہے دل جو ذرا ذرا بات پے دھڑک اٹھتا تھا ہر کسی سے لا تعلق ہو گیا کسی کے آنے سے کسی کے جانے سے کسی کے رکنے سے کسی کے اٹھنے سے کسی کے خوش یا ناخوش ہونے سے وہ یوں بے نیاز دکھائی دینے لگی کہ سمجھنے سے قاصر تھے وہ سب جو قریب تھے آخر ایسا خزانہ کیا ملا کہ ذات میں مستقل ٹھہراؤ آخر ماجرہ کیا ہے؟ اب کوئی تبدیلی کیوں نہیں نظرآتی وہی سادہ سراپا اوروہی مدہم سی مخصوص مسکراہٹ ہر کوئی جستجو میں تھا اچانک اندر داخل ہوتے سنا جس نے بتا دیا کہ کیوں اب کوئی نیا انداز نا پید ہے کیوں ایک ہی رخ پے زندگی کا سلسلہ رواں دواں ہے
آواز آ رہی تھی ( کہہ دو کہ ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا ہے ) اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے؟ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں سبحان اللہ یہی ہے صبغت اللہ ایسا پکا رنگ جو ایک بار خلوص نیت سے دل پر چڑھ جائے توموت تک یہی رنگ پکا رنگ رہتا جس پر اور کوئی دنیاوی رنگ نہ چڑھ سکتا نہ اسکو کم کر سکتا اللہ جس پر اپنا رنگ چڑھا دے وہ پھر انداز نہیں بدلتا الحمد للہ۔