تحریر : علی عمران شاہین دل کی دھڑکنیں ایک نئے انداز سے دھڑکنے لگی ہیں۔ تن بدن میں ایک نئی جوت جاگ رہی ہے۔ جسم کا رواں رواں ایک نیا ہی ارتعاش محسوس کر رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی ذات جس کا نام اس دنیا میں آتے ہی سب سے پہلے کان میں گونجا تھا اور زبان سے بھی والدین نے یہی لفظ ادا کروایا تھا، آج اسی اللہ کے گھر کی جانب روانگی کی گھڑی آئی ہے۔ وہ گھر جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے یگانہ قرار دیا تو اسے اپنی چنیدہ نشانیوں کا مرجع و منبع بنا دیا… رگ و پے میں توبس اب ایک ہی خیال ہے کہ کب قدم اس زمین پر لگیں گے جسے اول روز سے سانس، سوچ اور نظر کے نہاں خانوں میں بسائے اس کی جانب گردنیں جھکائی ہیں۔
گزری زیست کے ہر لمحے سب سے زیادہ اسی کے تذکرے سنے سنائے، پڑھے پڑھائے بلکہ سبھی کلمہ گو یہی کچھ کرتے آئے ہیں۔ ہوائی جہاز نے زمین کو چھوڑا توجیسے خیال بھی اڑنے لگے کہ بس ابھی اور ابھی منزل مراد پر پہنچ جائوں۔ حدود میقات سے پہلے احرام باندھنے کا مرحلہ آیا تو دو ان سلی سفید چادریں تیار تھیں۔ معاً خیال آیا کہ ایسی ہی دو چادریں تو ایک ایسے سفر پر روانگی سے پہلے زیب تن ہوتی ہیں جہاں سے کبھی واپسی نہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ چادریں خود پہنی ہیں تو وہ پہنائی جائیں گی۔ یہ چادریں پہنتے ہی یوں لگنے لگا جیسے زندگی کے گناہوں کے پہاڑوں کو اجلے شفاف لبادے نے اپنے دامن میں لپیٹ لیا ہو اور اندر کی گناہوں کی دنیا یوں دھل رہی ہوجیسے برفیلے کوہ و دمن سے پانی شوریدہ سری سے اچھلتا نکلا جاتا ہے۔
چند لمحے بعد ”لبیک اللھم لبیک” کی صدائیں بلند کرنے کی گھڑی سر پر تھی تو رگ و پے میںنئے حوصلے جاگ اٹھے تھے۔ ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ جیسے رگوں میں سرسراتے خون کو نیا ابال آ رہا تھا۔ لبیک اللھم لبیک کی آواز تو ہر سال موقع حج پرسنتے تھے تودل بے قرار ہوتا جاتا کہ وہ لمحہ کب آئے گا کہ ہم بھی یہ صدائیں بلند کریں گے۔ لیکن… یہ کیا…؟ جہاز میں بیٹھے پاکستانی عازمین سفید چادریں تو زیب تن کر چکے تھے لیکن سبھی کی زبانیں جیسے گنگ تھیں۔ کیسی بدقسمتی تھی کہ احرام باندھنے کے بعد بے دلیل دو نوافل تو سبھی کو یاد تھے لیکن رب کے حضور حاضری کے حقیقی کلمات سے جیسے سبھی لب ناآشنا تھے۔ستم یہ کہ کئی ایک تو احرام باندھنے سے شرمائے بیٹھے تھے اور توجہ دلانے پر کہہ رہے تھے ” اللہ غفور الرحیم ہے۔جدہ پہنچ کر باندھ لیں گے۔
Hajj Pilgrims
جدہ ایئرپورٹ پر اترے تو لگا جیسے برسوں دبے جذبات کی چنگاریاں چمک اٹھی ہیں اور ٹھٹھرتی زندگی کو جدہ کی قدرے گرم ہوا نے مزید دہکادیاہے۔ مستعدو محب سعودی امیگریشن آفیسر اسی لگن میں تھے کہ ہر کسی کو فوری اس کی مراد کی جانب روانہ کر دیا جائے۔ امیگریشن کے لئے 140 قطاریں، رنگا رنگ شکل و شباہت لیکن سبھی کے جسم پر ایک سالباس تو لبوں پر ایک ہی صدا… لبیک اللھم لبیک… آنکھیں نمناک تھیں تو دل شاداں و فرحاں کہ منزل شوق قریب تر ہے۔ زندگی میں جس کسی سے ملے تھے… سب کے لئے دل صاف کیا… ہر ایک کو معاف کیا تو لگا جیسے سنگ خارا جیسا دل موم کی مانند پگھل رہاہے۔ آگے بڑھے تو پتہ چلا کہ اب بسوں پر 80کلومیٹر کا سفر ہے۔ گزرے گھنٹوں اور طویل مسافتوں سے کئی رہروان جذب و محبت کے سرڈھلک رہے تھے۔
نگاہ دوڑائی تو جدہ ایئرپورٹ عظیم الجثہ خیموں کا شہر سانظر آیاتو شاہ فیصل کے امریکیوں سے کہے الفاظ بجلی کی طرح کوندنے لگے جو انہوں نے ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی پر ادا کئے تھے کہ ”ہم خیمہ نشین ہیں، خیموں میں رہ لیں گے، اونٹوں پر سفر کر لیں گے، فکر تم اپنی کرو۔” یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس قوم نے خیموں کو نہیں بھلایا بلکہ ہر جگہ اپنی ہر تعمیر میں خیموں کو روزوشب کا حصہ بنا کر ساری قوم کا ایسا ہی ذہن بنا دیا۔ بس نے حرکت شروع کی تو روشنیوں میں نہائے جدہ اور پھر مکہ تک قدم قدم پر عالیشان و وسیع مساجد نے دل و دماغ کو ایک نئی حرارت بخشنا شروع کی۔
منزل شوق نزدیک تر تھی تو یک لخت سامنے مکہ مکرمہ کو دور سے دکھانے والے دنیا کے بلند ترین ہوٹل ”ابراج البیت” پر نگاہ پڑی جس پر شب تاب میں چمکتے دمکتے” اللہ اکبر ”کے لفظ نے جذبہ شوق کو بھڑکانا تیز کر دیا۔ منٹوں میں بس مکہ مکرمہ کی سڑکوں پر رواں تھی تو چند منٹ میںہماری قیام گاہ ،ہمارے ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ جی چاہا کہ یہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوڑ لگا دوں اور جیسے ہو، بیت اللہ تک پہنچ جائوں۔ لیکن ابھی تو کئی امتحان باقی تھے جن سے فراغت چاہی تو وہیں موجود جمشید طارق کشمیری نفیس مچھلی کا ناشتہ لائے بیٹھے تھے… نہ جان نہ پہچان، میں تیرا مہمان… لیکن یہ تو اللہ کے گھر کا معاملہ تھا۔ ذہن نے جھٹکا دیا، جنت کا راستہ ہے… جنت میں اللہ تعالیٰ سب سے پہلے اپنے مہمانوں کو مچھلی کے جگر ہی کا تو کھانا پیش کرے گا۔ سوچند لقمے لئے اور پھر قدم مقامِ شوق کی جانب بڑھنے لگے تویوں لگنے لگا کہ سفر در سفربلکہ اس سے پہلے کی بھی ساری تھکاوٹیںپیچھے بہت دور رہ گئی ہیں۔
کتنے ہی تھے جو لبیک اللھم لبیک کی صدائیں اٹھاتے، قدم بڑھاتے، دعا پڑھ کرحرم پاک میں چلتے ہی جا رہے تھے۔ جس چہرے پر نگاہ پڑی… ایسی تابناکی اور محبت کے تلاطم کی لہر بہر تھی جیسے سبھی مایوسی اور بے چارگی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے امید کا ستارہ روشن کرتے آئے ہوں۔سانس سانس پر اللہ کی کبریائی کے نغمے ارتعاش پیدا کرتے تواندرباہر سے سب سرنگوںمحسوس ہوتا۔سامنے ہی رہنمائی بورڈ نصب تھا ”صحن مطاف کی طرف”۔اسے دیکھتے ہی قدم بے اختیار اس طرف بڑھا دیئے کہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو آج برہنہ سر اور ننگے پائوں حاضری کا حکم ہے۔
Labaik Allahuma Labaik
ایک موڑ کاٹا تو سامنے سنہری تاروں سے کندہ آیات قرآنی سے مزین سیاہ پردے میں لپٹا وہ بیت اللہ تھا جس کے دیدار کی خاطر نجانے کتنے نالہ نیم شب کی آہوں اور سسکیوں کے نذرانے پیش کئے تھے…اب کے آواز رندھ رہی تھی، تونظریں جیسے جم سی گئی تھیں۔جذب و شوق کی گرمی سے دل پگھلتا جا رہا تھا تو آنکھیں بس اشکباری ہی کر رہی تھیں۔ یہاں کتنوں کی گریہ و زاری اور دعا و مناجات کے زمزموں سے فضا جیسے ملکوتی رنگوں میں رنگ رہی تھی۔ ہر کسی کی کوشش کہ وہ اس گھر کے قریب تر ہو جائے۔یہیں چلتے خود کو جیسے مجرم سا محسوس کر رہا تھاتو افکار کے دریچوں سے خیالات ہتھوڑوں کے مانند ضربیں لگانے لگے کہ یہاں آنے میں اتنی دیر کیوں کی؟ یہاں آنے میں پائوں خون سے اٹ جاتے،پہلو گھس جاتے، چمڑیاں ادھڑ جاتیں، خون خشک ہو جاتے اور جسم سکڑ کر ہڈیوں سے لگ جاتے تب بھی یہ دیدار کسی طور مہنگا سودا نہ تھا… اس سفر کے بغیر تو نے یہ زندگی کیوںگزار دی؟ بس… اسی سوچ نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور میں والدہ محترمہ کا ہاتھ تھامے بیت اللہ کے قریب تر پہنچ چکا تھا۔
اب کے نگاہیں اس سیاہ پتھر کو تلاش رہی تھیں جو آیا جنت سے تھا،یہاں آمد پر اس کا روپ دودھ سے سفیدتر تھا لیکن ہم جیسے سیاہ کاروں کے گناہوں نے اسے سیاہ تر کر دیا تھا۔ طواف کا آغازیہیں سے ہونا تھا۔ قافلہء شوق کے کتنے راہی اس پتھر پر یوں فریفتہ تھے کہ جان کی بازی تک لگاتے نظر آتے۔ یہیں سے’ بسم اللہ، اللہ اکبر’ کہہ کر طواف کا آغاز کیا تو قدم مقام ابراہیم تک پہنچے اور سوچوں کے دھارے اللہ کے مقرب ترین بندوں، باپ بیٹے ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی جانب مڑ گئے۔ بابا جی ابراہیم علیہ السلام کی بھی اللہ سے محبت کے کیا کہنے کہ اس گھرانے کی ادائوں کو اللہ تعالی نے تاابدزندہ و جاوید کر دیا۔ یہاں اپنا گھر بنانے کا اعزاز عطا کیا تو قدموں کے نشانات بھی محفوظ کر دیئے۔
معاً بجلی کے مانند خیال کوندا کہ یہ تو وہی مقام ہے جہاں پیارے نبی محمد ۖ کی حیات طیبہ گزری، یہیں ان کے طواف و امامت نے جلوہ نمائی کی تھی، یہیں جلیل القدر صحابہ اپنے رہبرورہنما محمد رسول ۖ کے ہمراہ نمازیں ادا فرمایا کرتے تھے۔دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی دعائیں التجائیں کرتے یوں لگتا جیسے اندر کا اندھیرا چھٹ رہا ہو اور آسمان چمک رہا ہو۔ منزل روشن ہی روشن اور فضا ایک نئے ہی رنگ و نور سے جگمگا اٹھی ہو۔ کرئہ ارضی کے اطراف و اکناف سے آئے ہمہ قسم مسلمانوںکے رنگ، نسل، قوم، قبیلہ، ملک و ریاست کے فرق مٹ چکے ہیں۔ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ایک ہی جانب رخ کئے ایک ہی جیسی حسرتیں لئے چلتے جا رہے ہیں اور چلتے ہی جا رہے ہیں۔سات چکروں کے مقام ابراہیم پر نوافل ،آب زمزم اور پھر صفا و مرویٰ کے درمیان سعی کے بعد جب سر کے بال اتروائے اور احرام کھلا توکیفیت یہ تھی جیسے زندگی بھر کے گناہوں کا بوجھ اتر ساگیا ہو۔