تحریر : راشد علی راشد اعوان سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستے پر ایک عورت آکر کہنے لگی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ سے ایک کام ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام فلاں ! تو جس جگہ بیٹھنا چاہتی ہے بیٹھ جا میں تیر بات سنوں گا وہ ایک جگہ بیٹھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھ گئے اس کی بات سنی اورجو ضرورت تھی پورا کردی ،ابودائود ، پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا معیارعملیت تھا انبیاء اورآپ کے جانثاروں کے علاوہ جتنے لیڈر ،حاکم ،امیر،واعظ،مفکر،مدبر،مورخ دنیا میں فلاح انسانیت کے لیے آئے انہوں نے اپنے اپنے نظریات وخیالات کو لوگوں کے سامنے رکھا سقراط کا نظریہ فلسفہ،افلاطون کا نظریہ بادشاہت،ارسطو کا نظریہ تصورِ انقلاب،کارل مارک اورمائوزے تنگ کا نظریہ اشتمالیت ،تھامس ہابز کا نظریہ سیاسیات ،جان لاک کا نظریہ عمرانی ،مانٹیسکو کا نظریہ تقسیم اختیارات و قانون،ہیوم اورجرمی بین تھم کا نظریہ افادیت پسندی ،جے ایس مل کا نظریہ آزادی ،ہیگل کا نظریہ جدلیات،جین بودین کانظریہ اقتدارِ اعلیٰ ،روسو کا نظریہ تعلیم ،لینن کا نظریہ جمہوریت ،میکاولی کا نظریہ حکومت ،ہٹلر ،بش،ٹرمپ ،مودی نظریات سے دنیا آشنا ہے تاریخ گواہ ہے کہ خوش کن سے خوش کن فلسفہ ،دلچسپ سے دلچسپ نظریہ ،خوش آئند سے خوش آئند نعرہ ہروقت ہر کوئی پیش کر سکتاہے لیکن جو چیز ہروقت ہر کوئی پیش نہیں کرسکتاہے وہ عمل ہے انسانی سیرت کے بہتر او ر کامل ہونے کی دلیل اس خوشنما اقوال یا فرمودات نہیں بلکہ اس کے کارنامے اوراعمال ہیںاگر اچھے اوربرے کو اس معیار پر نہ پرکھا جائے تو یہ دنیا احمقوں اورخیالی جنت دکھانے والوں کا مسکن بن جائے کیا ساری دنیا ہمیں ایسا لیڈر ،حاکم ،رہنما اورامام دیکھا سکتی ہے کہ جس کے پاس ایک عام عورت آئے اورکہے میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں اورآپ فرمادیں جہاں کہیں میں وہیں آپ کی بات سن سکتاہوں اور سن بھی لے ،تاریخ بتاتی ہے۔
جنگی قیدیوں کا غلام بنایا جاتا تھا،انہیں اذیتیں دی جاتی تھیں بدنامِ زمانہ گوانتا ناموبے سے کون واقف نہیں ہے اُدھر بدر کے قیدیوں کے لیے سالارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر غور کیجئے ہرقیدی دس بچوں کوپڑھا دے تووہ آزاد ہے اورقید ی بھی وہ ہوں جو آپ کے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوں،تیراں سال تک اذیت دینے والوں کو فتح کے دن ”لاتثریب علیکم الیوم” کی نوید سنادے جبکہ دس ہزار کا لشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نوا ہوں دربارِ رسالت میں غلام تقسیم ہورہے ہوںبیٹی حاضر دربار ہو اورکہے بابا چکی چلا چلا کر ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے ہیں مجھے بھی ایک غلام عنائیت فرمادیجئے جواب میں آقا کہیں میری پیاری بیٹی فاطمہ یہ غلام تو بدر کے یتیموں کے لیے مختص کردیے گئے ہیں البتہ میں آپ کو ایک وظیفہ بتادیتا ہوں وہ پڑھ کر سو جایاکر اللہ ساری تھکاوٹیں دور کردے گاکیا کوئی ایسا نظام حکومت دیکھا سکتاہے جہاں اقربا پروری کا شائبہ تک نہ ہو،وہ آقا کہ جس کے پاس کوئی محل نہ ہومگر قیصروکسریٰ کی بڑی بڑی ریاستیں اس کے سامنے سرنگوں ہوگئیں ہوں ،وہ شاہِ امم جو یتیم بچوں کو اپنی گود میں اٹھا کر ان دل بہلاتا ہو اگر کبھی بچہ نظر نہ آئے توتیماداری کے لیے اس کے گھر پہنچ جاتاہو،جس کے درمیان امیروغریب کا کوئی امتیاز نہ ہوجہاں تقویٰ اولیت کا معیار ہو،کیا تاریخ مواخاتِ مدینہ جیسی عملی مثال پیش کرسکتی ہے کیا دنیا کے دانشور خطبہ حجتہ الوداع جیسا انسانی حقوق کا چارٹر پیش کرسکتے ہیں ایک دفعہ کا ذکر ہے غزوہ نجد سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے کے لیے درخت کے سائے نیچے لیٹ جاتے ہیں۔
ایک بدو موقع پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار سونت لیتاہے اور پوچھتا ہے؟ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟ اطمینان اورتسکین بھری آواز آتی ہے کہ ”اللہ” اس پُر اثر جواب سے دشمن کے ہاتھ سے تلوار گر جاتی ہے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تلوار تھام لیتے ہیں اور اسے معاف فرمادیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت اورانصاف پسندی کے کہنے عین اس وقت جب خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارلحکومت میں آرہے ہوں لوگ جوق درجوق قافلوں کی شکل میں اسلام قبول کررہے ہوں عرب قبائل کی نخوتیں آپ کی سادگی اوروفاشعاری کو دیکھ کر سرنگوں ہوگئیں ہوں ،عالمی قوتیں مرعوب ہوکر درِ دامن پر جھک گئیں ہوں ،ہزاروں جانثاروں کا لشکر آپ کے ایک اشارے پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو،عین اس وقت جب چارسو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کے چرچے زبان زدِ بام ہوں ایک دن جناب عمر رضی اللہ عنہ حاضرِ دربار ہوتے ہیں اِدھر اُدھر نظر اٹھا کر کاشانہ نبوت کے سروسامان کا جائزہ لیتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھردری چٹائی پر آرام فرمارہے ہیں ریشم وگلاب جیسے بدن پر بانوں کے نشان پڑگئے ہیںایک طرف مٹھی بھر جورکھے ہیں دوسری طرف کھونٹی میں خشک مشکیزہ لٹک رہاہے سرورِ کائنات کے گھر کی یہ کل کائنات دیکھ کے حضرت عمرروپڑتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عمر کیوں رو رہے ہو؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بڑھ کر رونے کا اورکیا موقع ہوگا ؟قیصر وکسریٰ دنیا کے مزے لوٹ رہے ہیں اورپیغمبر ہوکر اس حالت میں ہیں ارشاد ہوتا ہے اے عمر! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ قیصروکسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اورہم آخرت کی سعادت اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی گواہی بیگانے بھی دیتے نظرآتے ہیں فرانس کے سابق بادشاہ بوناپارٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”سردارِ اعظم اورعظیم انسان” کے القاب سے نوازا معروف جرمن ادیب وشاعرگوئٹے کا اظہارِ عقیدت کہ ”میرا جی چاہتا ہے اس رات کو عقیدت واحترام سے منائوں جس رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا” برطانوی مورخ وفلاسفر جارج برنارڈ شاہ کا نعرہ رستا خیرکہ آئندہ سوسال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا جان ولیم ڈریپرکا اعتراف کہ بنی نوع انسان پر جس شخص کی زندگی سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہیں مشہور فلاسفی روسو کا اظہارِ تمنا کہ کاش ! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ انسانیت کو بلندی پر پہنچانے کے لیے عرب کے لق ودق صحرا میں عظیم انقلاب کا آغاز کرچکے تھے ،زمانہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اورشانِ کریمی کا معترف ہے میں عاجز کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت وتعریف بیان کرسکتاصرف یہ کہنا چاہتاہوں بقول شاعر:
عقل سے ممکن نہیں اس کے محاسن کا حصر سربگر یباں رہیں لاکھ فقیہ و حکیم