تحریر : اقبال زرقاش اللہ رب العزت نے بے شمار مخلوق کی تخلیق فرمائی لیکن ان میں ایک مخلوق ایسی بھی بنائی جس پر خود فخر کیا اُسے اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا۔ اسکی امامت کے لیے اپنے پیارے حبیب جناب سرکار دوعالم ۖ کو منتخب کیا۔ شرف انسانیت کی یہ امامت جن کے حصے میں آتی ہے اللہ رب العزت انہیں عزت اور شرف عطا فرماتا ہے ۔اُن کی زندگی انسانی مخلوق کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے کیونکہ یہ لوگ اللہ کے پیارے حبیب رسول پاک ۖ کی محبت اور اطاعت کا پیکر ہوتے ہیں۔ وہ ملک، شہر اور بستیاں جہاں اللہ تعالیٰ کے ان محبوب بندوں کی جلوہ گری ہوتی ہے وہ روحانیت کا ایسا مرکز بن جاتی ہیں جہاں سے طالبان حق اللہ رب العزت کی توحید، محبوب خداۖ کی محبت اور عمل کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ہی اللہ کے محبوب بندوں کے صدقے ابھی تک ہماری بستیاں اور محفلیں شاد و آباد ہیں۔فی زمانہ جبکہ فکرو نظر کے انداز بدل گئے ہین ور بیشتر لوگ نئی فکر و نظر کے حامی نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں نے عشق کے مقابلے میں عقل کو اپنی کسوٹی بنایا۔ مقام حیرت ہے کہ یہ لوگ اسی نظرئیے کے تحت اولیاء کرام ، صوفیاء اور عشاق رسولۖ کو بھی موجودہ نام نہاد ترقی پسندی کے میدان میں کھینج لاتے ہیں۔
ایک عرصے سے ہمارے بعض دینی ادارے ان بزرگان دین اور مشائخ عظام پر کچھ اس طرح لے دے کر رہے ہیں کہ ان کے فتوئوں سے گھبرا کرہمیں شبہ ہونے لگا ہے کہ شاید روشنی کے ان میناروں کی تقلید و محبت اور پیروی ہم سب کو کہیں تاریکی کی طرف تو نہیں لے جارہی یا واقعی ہم بدتی اورگمراہ ہیں۔ نئے مکتبہ فکر کے ان مفکرین اور دانشوروں کے اعتراضات پر غور کیاجائے تو ہمیں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے۔ یا تو یہ لوگ اولیاء کرام کی بزرگی کے منکر ہیں یا پھر انہیں ایک استاد، عالم اور رہنما کی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ حضرات ان کی تعلیمات و فرمودات کے تو قائل ہیں لیکن ان کی ریاضت و مجاہدہ اورکشف و کرامات کو من گھڑت افسانے،لایعنی باتیں اور بے معنی قصے قرار دیتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اکابرین نے اظہارکشف و کرامات کو ولایت کا معیار قرار دیا۔ لیکن ایک ولی اللہ جہاں ولایت کے دوسرے اوصاف کا مالک ہوتا ہے وہاں کشف و کرامات بھی انکی ولایت کا لازمی جزو ہیں جنہیں انکی حیات مبارکہ سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ گفتار و کردار کی بلندی کے ساتھ ساتھ کشف و کرامات کے اظہار سے ان بزرگ ہستیوں نے مشرکوں ، کفار اور گمراہوں کو نورایماں بخشا ہے بلکہ کرامات کے اظہار سے انہوں نے خلیفتہ اللہ اور نائب رسول ۖ کے عظیم ترین مراتب کے اہل ہونے کا ثبوت بھی بہم پہنچایا ہے ۔ انبیاء کے معجزات کی طرح اولیاء کرام نے بھی بلاوجہ کرامات کا اظہار نہیں کیا بلکہ بوقت اشد ضرورت ہی ان حضرات سے ایسی باتیں ظہور میں آ جاتی ہیں جس سے انہیں حصول شہرت مقصود نہیں بلکہ وہ خلق خدا کو اپنا گرویدہ بناکر اُسے رب اعلیٰ کی طرف بُلاتے ہیں۔
قارئین!اولیاء کرام کی زندگی کے واقعات شاہد ہیں کہ جب بھی کسی بزرگ نے شہرت،عظمت یا بزرگی کے خیال سے کسی کرامات کا اظہار کیا اُسکی بزرگی سلب کر لی گئی یا وہ اپنے مقام سے گِر گئے اس لیے ان حضرات والا کے تذکروں میں جو کشف و کرامات درج ہیں ان سے انکار ان بزگوں کی ولایت سے انکار اور انہیں جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ذرا سوچیئے ایسی پاکباز، بلند پایہ ہستیوں پر کوئی اہل قلم یا اہل علم کیا تنقید کر سکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان حضرات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے کہنے والے کا صاحب حال ہونا ضروری ہے جو آدمی حق سے آگاہ نہیں وہ ان ہستیوں کے بارے میں کہے گا بھی کیا اور اگر ضد و ہٹ دھرمی سے کچھ کہے گا بھی تو اس میں کتنی صداقت ہو گی۔ علم دین کی چند کتابیں پڑھ کر کوئی عالم تو بن سکتا ہے لیکن وہ عالم اولیاء کرام کے “علم و یقین” پر کسی حد تک روشنی ڈال سکتا ہے۔ ظاہر ہے اس کا یہ دعویٰ جھوٹا، ضد اور بُری بات سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتا۔ جس طرح دنیاوی علوم پر بحث کرنے کے لیے ان علوم کا ماہر ہونا ضروری ہے اسی طرح رب تعالیٰ کے ان پاکباز، راست گو، راز دانوں کے علم پر کہنے سُننے کے لیے بھی کچھ علم درکار ہے۔ یہ عنایت ربّی ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتی ۔قال سے حال کی گتھیوں کا سلجھائو مشکل ہے۔
Hazrat Data Ganj Bakhsh
حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ تصوف کوئی رسم نہیں بلکہ اخلاق ہی اخلاق ہے اور یہ حضرات اس سرمایہ حیات کے سب سے زیادہ حامل اور امین ہیں ان پاک لوگوں کی باتوں ،تذکروں سے رب تعالیٰ یاد آتا ہے۔ ہمیں اپنے مردہ ضمیر کو زندہ اور نفس کو زیر کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا دل گناہوں سے فرار اختیار کرتا ہے۔ عارفِ رُومی نے کیا خوب کہا ہے۔
یک زمانہ صحبتِ با اولیائ بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا اور اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے کیا پتے کی بات کہی ہے اورا پنے علم و فن پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ برملا اعتراف کیا ہے۔ مولوی ہرگزنہ شُدمولائےِ روم تا غلام شمس تبریزی نہ شُدہ
آج بھی ہمارے اردگرد اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی کوئی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو صرف اورصرف صدق یقین کی ۔ ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے۔جسکی وجہ سے ہم اولیاء کرام سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ہر چیز کو عقل کی کسوٹی سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کہ درست عمل نہیں۔قارئین! فراغت کے لمحات میں اکثر میرا معمول ہے کہ کسی نہ کسی بزرگ ہستی کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گذارا جائے اور اس سلسلے میں صحافتی امور کی انجام دہی میں بھی میری بہت معاونت ہوتی ہے ۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ملکی امور پر اگر کسی اللہ والے سے بحث کی جاتی ہے تو وہ آنے والے حالات سے یوں پردہ چاک کرتے ہیں کہ جیسے وہ مستقبل سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں اورا ن کی پیش گوئیاں وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہوتی ہیں۔
اٹک کامرہ روڑ کے درمیاں ایک بزرگ ہستی “ڈیرہ بہاراں والی سرکار” پر جلوہ فروز ہے جو سائیں شفیق کے نام سے مشہور ہیں ۔ گذشتہ دنوں اپنے اک دوست سردار ایاز خالد مٹھیالوی کے ہمراہ ان کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک اٹک کی سیاست پر بات چل نکلی اور ضلع کونسل اٹک کے الیکشن میں چیرمین شپ کے لیے دوا میدواروں کے درمیاں کانٹے دار مقابلہ تھا۔ رزلٹ جو بظاہر مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار احسن خان کے حق میں جاتا ہوا نظر آ رہا تھا میںنے کہاکہ عددی برتری کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے امیدوار چیرمین شپ کی سیٹ آسانی سے جیت چکے ہیں۔سردار ایاز خالد مٹھیالوی نے بھی میری با ت کی تائید کی کہ بظاہر ن لیگ کی کامیابی یقینی ہے۔ ا س پر سائیں شفیق نے سردار ایاز خالد مٹھیالوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عددی برتری کو چھوڑیں آپ بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ میجر ر طاہر صادق گروپ کی امیدوار ایمان وسیم کامیاب ہو اس پر سائیں شفیق مسکرائے اور کہا کہ آپ کی خواہش پر میں نے دعا کر دی ہے۔ کچھ دنوں بعد 22 دسمبر کو جب رزلٹ آیا تو معلوم ہوا کہ ضلع کونسل اٹک کی چیرمین شپ کا الیکشن میجر ر طاہر صادق گروپ اور پی ٹی آئی کی مشترکہ امیدوار ایمان وسیم 58ووٹ لیکر پہلے نمبر پرا ور مسلم لیگ ن کے امیدوارسردار احسن 37 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔21 ووٹ کی واضح برتری سب کو حیران کر گئی بلکہ سابق ناظم میجر ر طاہر صادق نے اپنے گھر اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ یہ برتری کسی معجزہ سے کم نہیں اور اسکی کامیابی کو اٹک کے عوام اور اپنی ماں کی دعا کا نتیجہ قرار دیا۔ پورے پنجاب سے مسلم لیگ ن ہر ضلع میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی تاہم اٹک کا رزلٹ میاں برادران کو بھی حیران کر گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاراحمد خان کے بھانجے سردار احسن کی شکست پر آج بھی سیاسی حلقوں میں حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا جبکہ مسلم لیگ ن اپنی بظاہر کامیابی پراس قدر نازاں تھی کہ انہوں نے جیتنے کی خوشی مین مٹھائیاں پہلے سے منگوا رکھی تھیں۔ ایسے واقعات ہمیں سننے کو ملتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولیاء کرام کی محبت نصیب فرمائے یہی دین و دنیا میں کامیابی کی بڑی سند ہے۔