عمر بِن ہشام مشرکینِ مکّہ کا سردار تھا۔ مشرکین کے تمام قبائل میں اسے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور مشرکینِ مکّہ اُسے ابوالحکم یعنی دانائی کا باپ کہہ کر پکارتے تھے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ عمر بن خطاب اور عمر بن ہشام، دونوں میں سے کسی ایک کو مسلمان کر دے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دُعا قبول ہوئی اور حضرت عمر بن خطاب دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے لیکن یہ سعادت عمر بن ہشام کے حصّے میں نہ آئی اور وہ ہمیشہ کے لیے ابوجہل یعنی جہالت کا باپ قرار پایا۔ اب بھی یہ عالم ہے کہ اگر کسی شخص کو ابو جہل کہہ کر پکارا جائے تووہ مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔۔۔۔
عشقِ عمران میں ڈوبے ایک محترم لکھاری کا خیال ہے کہ پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسے ابوجہل اتنی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں کہ گلو بادشاہ کی حکومت چاہے تو وہ اُنہیں برآمد بھی کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ وقت پر چھوڑ دیجئے کہ ابوجہل کون ہیں،وہ جو موجودہ حالات میں دھرنوں کی سیاست کو ملک وقوم کے لیے زہرِ ہلاہل سمجھتے ہیں یا وہ جو ایک ایسے شخص کو”کُرسی”تک پہچانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر رہے ہیں جسے صرف اقتدار کی ہوس ہے۔
جس نے نعرہ تو یہ لگایاکہ اُس کی جماعت میں صرف باکردار لوگ ہی شامل ہو سکتے ہیں لیکن اپنے دائیں بائیں ایسے لوگوں کو اکٹھا کر لیا جن کے خلاف بقول شخصے انقلاب آنا چاہیے، جس نے پاکستان میں ایک ایسا سیاسی کلچر متعارف کرایا جس کی بنیادہی انا، ضد اور ٹکراؤ ہے، جس نے غیر پارلیمانی اور بازاری زبان کو سیاست کا حصّہ بنا کر اُسے آلودہ کر دیا اور جسے سچ بولنے کی سرے سے عادت ہی نہیں۔ یہ سیاسی کلچر ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے، عمران خاں کے لیے بہتر ہے نہ ان کے مدح سراؤں کے لیے۔
بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کا 28 اکتوبر کا جلسہ متاثر کن تھا لیکن یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہر گز نہیں تھا۔ یہ ایسا ہی سفید جھوٹ ہے جیسا ڈی چوک اسلام آباد میں ہر روز اُس وقت بولا جاتا ہے جب پانچ چھ ہزار کے مجمعے کو”انسانوں کا سمندر”کہہ دیا جاتا ہے۔ اس جلسے کو لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دینے والے لکھاری یا تو مرضِ نسیان میں مبتلاء ہیں یا پھر” بغضِ نواز لیگ”میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ سچائی لکھتے ہوئے اُن کے ہاتھوں پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔
Benazir Bhutto
بینظیر بھٹو کا استقبالی جلوس اِس سے کہیں بڑا تھا اور حضرت مولانا مودودی جب امریکہ سے علاج کرواکر وطن لوٹے تو جلوس کا ایک سرا لاہور ایئر پورٹ اور دوسرا اچھرہ اُن کی رہائش گاہ تک پہنچ چکا تھا ۔یہ غالباََ 1974ء کی بات ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ اُس وقت لاہور کی آبادی کروڑوں میں نہیں، چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ دور مت جایئے، اسی مینارِ پاکستان کے سائے تلے علامہ طاہرالقادری نے جو جلسہ کیا تھا وہ خاں صاحب کے جلسے سے کہیں بڑا تھا۔ ویسے بھی برِصغیر کی تاریخ تو یہی بتلاتی ہے کہ جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے ووٹ نہیں ملا کرتے۔1970ء کی الیکشن مہم میں جماعتِ اسلامی کے شوکتِ اسلام کے جلسے اور ریلیاں دیکھ کر حیرت گُم ہوجاتی تھی لیکن انتخابات میں بازی لے گئے بھٹو مرحوم اور جماعتِ اسلامی کی جھولی خالی رہ گئی۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے کہ لوگ جوق دَر جوق اُن کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں لیکن ووٹ جناح کودے آتے ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خاں صاحب قائدِاعظم کے جانشیں ہیں لیکن ”چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک”۔حضرت قائدِاعظم کو ان کے ڈاکٹر اُن کی بیماری کے بارے میں کھُل کر بتا چکے تھے لیکن پاکستان بنانے کی لگن میں اُنہوں نے اپنی بیماری کی بھی کوئی پرواہ نہ کی اور یہی نہیں بلکہ اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کوبھی اپنی بیماری کے بارے میں کسی کو بتلانے سے سختی سے منع کر دیا۔ انہوں نے پاکستان حاصل کیا اور پھر سال سوا سال بعدہی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ جبکہ دوسری طرف محترم عمران خاں کے ایک دھرنے نے ہی اُن کی شخصیت کا ایک ایک پرت کو کھول کے رکھ دیا۔ سونامیے اسلام آبادکی سڑکوں پر بے یارومددگار”رُلتے” رہے اور خاں صاحب اپنے بنی گالہ کے محل میں استراحت فرماتے رہے۔ قائدِاعظم کے بارے میں اُن کے دشمن بھی تسلیم کرتے تھے کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن محترم خاں صاحب نے گزشتہ پچاس دنوں میں اتنے یوٹرن لیے اور اتنے جھوٹ بولے کہ حساب رکھنا مشکل۔ صرف چند کاغذات کو ہوا میں لہرا دینے سے جھوٹ توسچ میں نہیں بدل سکتا البتہ جزوقتی یقین کیا جاسکتا ہے لیکن جب سچائی سامنے آتی ہے تو پھر لوگوں کا ردِعمل بھی انتہائی خوفناک ہوتا ہے۔
خاں صاحب نے آج تک جتنے بھی دعوے کیے ہیںاُن میںسے کسی ایک کا ثبوت بھی نہ تووہ خود پیش کر سکے اور نہ ہی اُن کے قصیدہ گو۔ ایسے لکھاریوں کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کردے تاکہ وہ اپنی”ابوجہلانہ”روش ترک کرکے راہِ راست اختیار کر سکیں اور اُس شخص کے دست و بازو بننے سے گریز کریں جس کی ہوسِ اقتدار نے اُسے ”ہیرو”سے ”زیرو” بنا کے رکھ دیا۔
آجکل”گو نواز گو”کا بہت شور ہے ۔یقیناََ جس نے بھی یہ نعرہ ایجاد کیا وہ دِل کی گہرائیوں سے میاں نواز شریف کا حامی ہوگا۔ عقل کے اندھے ”سونامیوں”کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ گو نواز گو کا مطلب ”قدم بڑھاؤ نواز شریف”ہے اور یقیناََ جولوگ پاکستان کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ،یہ نعرہ اُن کے دِل کی آواز ہے اِس لیے اکا برینِ نواز لیگ کو اِس نعرے پرتِل ملانے کی بجائے مُسکرانا چاہیے البتہ یہ گُلو، بِلو، تومی ،پومی اور تو فی بَٹ والا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ پتہ نہیں اِن ”بٹوں”کو کیا ہوا ہے کہ جہاں کہیں سونامیوں کو دیکھتے ہیں ،یہ اپنا ”پھینٹی پروگرام”شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ہم تو بیچارے سونامیوں کو مظلوم سمجھتے ہیں کیونکہ یہ تو خوابوں خیالوں میں اپنے آپ کو پورے ملک کے بادشاہ بلکہ شہنشاہ سمجھ بیٹھے تھے
لیکن جب عالمِ آب وگِل میںواپس آئے تو پتہ چلاکہ ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا”۔اب توماشاء اللہ تحریکِ انصاف کے پاس بھی ایک ایسا” بَٹ”موجود ہے جو اِن سارے بَٹوں پر بھاری ہے۔ نام اُس کا ہے ڈی جے بَٹ اور اُس کے بغیر خاں صاحب کے سارے جلسے روکھے پھیکے اور پھسپھسے لگنے لگتے ہیں۔ وہ دو دِن کے لیے جیل کیا گیا خاں صاحب کے دھرنے کی ساری رونقیں بھی ساتھ ہی لے گیا۔ شکر ہے کہ اُسے رہائی ملی اور سونامیوں کے چہرے بھی خوشی سے دمکنے لگے ،یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں کویہ رہائی بُری طرح کھٹکنے لگی۔
در اصل یہ وہی لوگ ہیں جو قوم کے نو نہالوں کونا چتے گاتے دیکھ نہیں سکتے۔ اسی لیے تو محترم عمران خاں کے ایک مدح سَرانے ایسے لکھاریوں کو لفافہ یافتہ میڈیا کے کارندوں، مراسیوں، ڈوم ڈھاریوں، بھانڈوں، کفش برداروں اور قصیدہ نگاروں کے نام سے یاد کیاہے اور درست یاد کیا ہے کیونکہ ماڈرن معاشروں میں یہی کچھ توہوتا ہے جو خاں صاحب کے جلسوں میں ہورہا ہے۔