رمضان المبارک کا مقدس و بابرکت مہینہ جیسے جیسے قریب آرہا ہے، ویسے ویسے بھکاریوں نے ٹولیوں کی شکل میں شہر کی اہم شاہراہوں ،چوراہوں پر ڈیرے جمانے شروع کردئیے ہیں،شہر کی تمام چھوٹی بڑی مارکیٹوں ،مساجد، ودیگر مقامات ان کی آما جگاہوں کا روپ دھار چکی ہیں،اس وقت ایک اندازے کے مطابق مری میں ہی ان بھکاریوں کی بہت بڑی تعدادموجود ہے،جن میں عورتیں، بزرگ،حتیٰ کے نوعمر بچے بھی ” اللہ کے نام پردے جا سکھیا”کی آوازیں لگاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
ان گدا گروں نے باقاعدہ مافیا کا روپ دھار رکھا ہے، اور ان کی سرپرستی مقامی انتظامیہ اور ان بھکاریوں کے مالک کرتے ہیں، جو ان کو باقاعدہ ہر صبح شہر کے مین چوراہوں اور شاہراہوں پر چھوڑ جاتے ہیں،اور سر شام ہی ان کو مطلوبہ جگہوں سے لے لیا جاتا ہے،پاکستانی معاشرے میں مردوں کے ساتھ ساتھ نوعمر بچوں اور خاص طور پر خواتین کا سڑکوں پر نکل کر بھیک مانگنا پیشہ بن چکا ہے۔
بازار ہسپتال یا کسی سٹاپ پر کھڑے ہوں کوئی نہ کوئی بھکاری عورت آپ کے ارد گرد منڈلاتی دکھائی دے گی،لاہور ،اسلام آباد ،مری سمیت پاکستان بھر میں خواتین شہر کی اہم شاہراہوں پر بھیک مانگتی عورتوں کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔یہ خواتین چھوٹے بڑے گلی کوچوں سے لیکر شہر کی بڑی شاہراہوں اور اہم سٹاپوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہیں،جن میں سے اکثر جسمانی طور پر بالکل ٹھیک اور صحتمندہوتی ہیں، مری سے میڈیکل کی طالبہ طوبہ عباسی کا کہنا ہے کہ یہ بھکاری عورتیں مسافر خواتین سے لپٹ لپٹ کر بھیک کا تقاضا کرتی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک پانچ یا دس روپے مانگنے والی یہ عورتیں اب سو سو روپے کی بھیک مانگتی نظر آتی ہیں، اور بڑی ڈھٹائی سے مانگتی ہی چلی جاتی ہیں ،طوبہ عباسی کا مزید کہنا تھا کہ کبھی اتفاق سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ بازار میں آنے والی گھریلو خواتین کے پاس سو روپے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ ان بھکاری عورتوں کو پانچ یا دس روپے دیکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہیں ،لیکن یہ بھکاری عورتیں انہیں اچھا خاصا ذلیل کردیتی ہیں اور بار بار بھیک کا تقاضا کرتی رہتی ہیں۔
جس کی وجہ سے گھریلو خواتین شرمندگی کی وجہ سے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں، مختلف خواتین قصے کہانیاں سنا کر سادہ لوح خواتین کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں، جس میں سے ایک طریقہ تویہ عام ہوچکا ہے کہ وہ بس سٹاپ پر کھڑی عورتوں یا لڑکیوں کے پاس جا کر کہتی ہیں کہ وہ کسی دوسرے شہر سے آئی ہیں،اور انہیں شام سے پہلے اپنے گھر یا گائوں لوٹنا ہے، اور ہمارے پاس واپسی کے لئے کرایہ نہیں ہے۔
Beggars
کیونکہ ہمارا بیگ جیب کترے نے چرا لیا ہے، اور ہماری تمام رقم اس بیگ میں ہی تھی، اور ہم کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ حالات ہی اس طرح کے ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی مدد کرنے کوتیار نہیں،اسی لئے مجبورا آپ کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا،بھولی بھالی اور سیدھی خواتین ان بھکاری عورتوں کی باتوں میں آکر انہیں منہ مانگی رقم ادا کردیتی ہیں، اور یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ انہوں نے نے کسی ضرورت مند کی مدد کرکے بہت نیکی کا کام کیا ہے، لیکن جب وہ دیکھتی ہیں کہ چند قدم آگے جا کر وہی خاتون کسی اور کو یہ قصہ سنا رہی ہے۔تو ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔
کچھ خواتین شہر کے بڑے بڑے مزاروں کے سامنے یا حاجی کیمپ جیسے اہم مقامات کے آس پاس پھولوں کے ہار تھامے منڈلاتی نظر آتی ہیں،یہ خواتین موقع ملتے ہی ایک ہار کسی بھی خاتون کے گلے میں پہنا کر اسے اللہ اور رسول کے واسطے دیتے ہوئے بھیک کا تقاضا کرتی ہے،اس دوران اگر کوئی خاتون ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرے تو وہ بھاکری خواتین انہیں بددعائیں دے کر جذباتی طورپر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ،پاکستان میں حالانکہ کچھ سال پہلے ان بھاکریوں پر بھیک مانگنے کی پابندی لگائی گئی تھی۔
اور کہا گیا تھا کہ جس علاقے میں یہ بھکاری لوگ بھیک مانگتے نظر آئے تو اس علاقے کا ایس ایچ او ذمہ دار ہوگا اور اس کو معطل کردیا جائے گا،لیکن اس قانون پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا کیونکہ ان بھکاریوں کی سرپرستی کرنے والوں میں خود علاقے کی پولیس ملوث ہوتی ہے اور ان کو باقاعدگی سے منتھلی پہنچتی ہے جس کی وجہ سے یہ گھنائونا دھندہ یا کہہ لیں کہ کاروبار آج تک بند نہ ہوسکا۔
اور آج بھی مرد،خواتین، بزرگ اور نوعمر بچے بھیک مانگنا اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں، اب جب کہ کچھ دن کے بعد رمضان المبارک جیسے مقدس ماہ کی آمد ہونے والی ہے تو اس کے ساتھ ہی بھکاریوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے چاہیئے تاکہ بھکاریوں سے عوام کی جان چھڑائی جاسکے۔
MA.Tabasum
تحریر:ایم اے تبسم matabassum81@gmail.com 0300-4709102