ہیپی نیو ایئر مگر کن کا

Muharram

Muharram

مقصد اپنی زندگی کا انسان بھول گیا
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت، اللہ کا فرمان بھول گیا
اغیار کی تہذیبیں سب اپنائے ہوئے ہیں
اپنے اسلام کا طریقہ ذیشان بھول گیا
بد نصیبی طفیل اس کی کہاں تک بیان کروں
یہ بیچارہ خود اپنی ہی پہچان بھول گیا

ایک اور نیا سال شروع ہو گیا ہے، قیامت مزید ایک سال قریب آگئی، فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ”تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں۔”ہم نے ایک سال اور گزار دیا، ذرا اپنا احتساب کریں کہ کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں؟ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام اس حوالے سے کیا بتاتا ہے ۔ ”اسلامی سال” کا آغاز ”محرام الحرام” سے ہوتا ہے اور محرام الحرام اسلامی تقویم کا پہلا ماہ مبارک ہے اور اس کی اہمیت سے بہت ہی کم مسلمان واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقدس مہینہ تاریخ میں فتنہ و فساد اور رسوم و بدعات کا پلندہ بن کر رہ گیا ہے۔ اگر ایک طرف دہشت گردی کی سنگین وارداتیں اس ماہ میں رونما ہوتی ہیں تو دوسری طرف بے تحاشہ رسوم اور بدعات کو بھی اس ماہ مبارک میں دہرایا جاتا ہے ، اور یوں نئے اسلامی سال کی ابتدا دہشت گردی اور بدعات سے ہوتی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو بڑا محترم ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ نے نہ اسے سوگ کے لئے مقرر فرمایا ہے اور نہ ہی توہّمانہ خیالات کیلئے۔

محرام الحرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی ہجرت کا عمل تقریباً مکمل ہو چکا تھا اس لئے حضرت عمر کے دور میں جب اسلامی کیلنڈر کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس میں پہلی اسلامی مملکت بنیاد بننے والے عظیم عمل ہجرت کو ترجیح دی گئی حالانکہ دیگر تمام سنین کسی شخصیت کی پیدائش یا موت کے حوالے سے ہیں ، مثلاً عیسوی سن یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور رفع آسمانی سے متعلق ہے۔ اسی طرح جولین اور بکرمی سن ہے۔ اسلام کی امتیازی شان ہے کہ اس نے ایمان و عمل کو ترجیح دی ہے ، اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے بڑھ کر کیا عظیم واقعات ہو سکتے ہیں ، لیکن قوموں کی سربلندی میں شخصیات کے عظیم اعما ل کا کردار ہوتا ہے نہ کہ پیدائش و وفات کا۔ اس لئے مسلمانوں کا یکم جنوری کو ” ہیبی نیوایئر”کا جشن منانا میری سمجھ سے بالا تر ہے ، شاید کچھ لوگ اسے ” روشن خیالی ” کا نام دیں لیکن اسلام جہاں دوسروں کے عقائد کے احترام کا درس دیتا ہے وہیں ہمیں دوسرے مذاہب کے عقائد و نظریات کو اختیار کرنے سے روکتا بھی ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی یکم جنوری سے شروع ہونے والا ” نیا سال” یہودیوں اور عیسائیوں کا ہے اس کے باوجود اسلام کے قلعہ میں فحاشی و عریانی اور بے حیائی و بیہودگی سے بھر پورپروگراموں کا انعقاد سرکاری سرپرستی میں ہونا ،لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پرنٹ میڈیا کے تمام ذرائع بشمول اخبارات اوررسائل خواہ وہ مذہبی ہوںیا سیاسی تمام کے تمام یکم جنوری کو ہی اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں۔

31دسمبر کی رات جو کچھ ہوتا ہے اس کے بارے میں تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا، اس رات شرم و حیاسے عاری ”رقص و سرور” کی محافل کا انعقاد انگور کی بیٹی کا کھلے عام استعمال ، اور لاکھوں روپے رقاصائوں پر لٹانا اور وہ سب کچھ جسے قلم بھی لکھنے سے شرماتا ہے ۔ کیا یہ سب کچھ ایک مسلمان قوم کو زیب دیتا ہے ۔؟ ایسے ہی مسلمانوں کا حال ایک شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔

Allah

Allah

ہر کوئی مست ہے ذوق تن آسانی میں
تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟

سال کی آخری رات میں اپنے اعمال سیاہ کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ کہیں انہی کی حرکتوں کی وجہ سے ”سونامی” زلزلہ اور سیلاب جیسی قدرتی آفات نازل تو نہیں ہوئیں۔ اس رات بے حیائی اور فحاشی پر پیسہ ضائع کرنے کے بجائے متاثرین سیلاب اور حالیہ متاثرین زلزلہ میں سے کسی ایک پر خرچ کریں تو یقینا اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور بعض ممالک پر ”عذاب الٰہی” ختم ہو جائے۔ مگر افسوس کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بغاوت کے کام چھوڑ نے کو تیار نہیں۔ اور ایسے بے ہودہ تہواروں کو مناکر اللہ کے عذاب کو مزید دعوت دے رہے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نئے سال کا مطلب نئی منزل کی طرف جاری سفر کا ایک اور قدم ہے ، اک نئی منزل کا آغاز ، اور مسلمان جب بھی کوئی کام شروع کرتا ہے تو اس کا آغاز وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر کرتا ہے، اس موقع پر اس کا سر رب کی بارگاہ کے آگے جھکتا ہے ، مگر ہمارا طریقہ اور روش کیا ہے، اے مسلمان ! افسوس صد افسوس کہ:

ہم وہ پہلی سی روش اور ادا بھول گئے
کیا ہے محبت میں آداب وفا بھول گئے
لٹ گئی دولت ایمان پر احساس نہیں

کچھ بھی فرمان ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہمارے پاس نہیں
ہیپی نیو ایئر منانا اور اس کی مبارک با د دینا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی عین خلاف ورزی ہے، اس لئے کہ غضب اللہ علیہم (للہ ان پر ناراض ہوا) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعن اللہ الیہودو ا لنصاریٰ، اور قاتل اللہ الیہود و النصاریٰ فرما کر بد دعائیں کی ہیں، پھر ہم ان کے حق میں دعائیہ اور مبارک باد کے کلمات کیسے کہیں؟ سنن بیہقی میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کا فرمان ہے ۔” کہ جس نے نو روز مہر جان منایا اور ان کی مشابہت اختیار کی اور وہ توبہ کے بغیر اسی حالت میں مر گیا تو قیامت کے دن انہیں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

آخر میں میرا پیغام ان کے لئے جو لوگ اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں کہ وہ اسلامی تہوار اور کلچر کو عام کریں اور ان سب باسی طریق او ر بدعتی، صلیبی ،ہندی خود ساختہ تہواروں کا بائیکاٹ کریں۔ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدی کو ان تمام غیر شرعی تہواروں سے بچائے۔ آمین ثم آمین۔

Faisal Mehmood Mughal

Faisal Mehmood Mughal

تحریر: فیصل محمود مغل