تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں زمین پر فطری مناظر سے لبالب بصری جنت کا نظارہ کر رہا تھا ‘چاروں طرف فطرت کے جلوے ہی جلوے ‘کرشمے ہی کرشمے ‘نظارے ہی نظارے ہر منظر اتنا دلکش جامع اور بھرپور کہ دنیا کا بڑے سے بڑا منکر خدا بھی اگر دیکھ لے تو کروڑوں ایمان لے آئے ‘میرے سامنے خدا کے وجود کی شہادتوں کا ایک انبار موجود تھا ‘میں خالق کائنات کے حیرت انگیز تخیل پر عالم محویت میں تھا ۔فطرت کا خاص امتیاز اس کا سحرانگیزحسن ہے جس کا نظارہ کرتے ہمارا جمالیاتی ذوق حرکت میں آجاتا ہے ‘میرے چاروں طرف رنگ برنگے پھول مسکرا رہے تھے ‘ناچ رہے تھے ‘میرا شعور سائنسدانوں کی اس بات پر ماتم کناں تھا جب وہ کہتے ہیں کہ ہماری زمین آگ برساتے سورج سے نکلی تھی تو عقل ان تبدیلیوں پر حیران رہ جاتی ہے جس کی آخری کڑی مسکراتے ناچتے پھول تھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے آگ برساتے شعلوں کورام کر کے مسکراتے ناچتے پھولوں میں تبدیل کر دیا ہو ‘میں نے غیرارادی طور پر ایک پھول توڑ لیا ‘غور سے دیکھا تو اس پر باریک ننھے منے کیڑے یا چیونٹیاں نظر آ رہی تھیں لیکن میں نے جیسے ہی پھول کو سونگھنے کی کوشش کی تو ننھی منی چیونٹیاں ہوا میں پرواز کر گئیں۔
شدید حیرت ہوئی کہ یہ تو اڑنے والی باریک مکھیاں ہیں جن کے سر پائوں نظر نہیں آرہے تھے ‘ان کی ٹانگیں ہاتھ پائوں اور پر بلکل بھی نظر نہیں آ رہے تھے خالق کائنات کی خالقیت کا نقطہ عروج ملاحظہ فرمائیں کہ نظر نہ آنے والے ہاتھ پائوں اور پروں میں کس طرح نظام خون کا جال بچھایا تو پائوں پنکھ نظر نہ آنے کے باوجود وہ مکمل تھیں ان کے پیٹ میں انتڑیاں ‘سینے میں دھڑکتا دل ‘یہ کس طرح کھاتی ‘پیتی ‘سوتی ‘افزائش نسل کے مراحل سے گزرتی ہونگی ‘خالق کائنات نے ان کے باریک پر ہاتھ پائوں بنانے کیلئے کونسے آلات استعمال کئے ہونگے ۔واہ ‘سبحان اللہ ۔انسان کی بنائی ہوئی مشینیں نہ خود چلتی ہیں نہ ہی اپنی مرمت کر سکتی ہیں ‘لیکن خدا کی تخلیق کا اعجاز دیکھیں خود ہی مرمت خود ہی چلتی ہیں امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے مین گیٹ پر کیا خوب لکھا ہوا ہے اے خدا میری آنکھیں کھول دے کہ میں تیری تخلیق کے عجائبات دیکھ سکوں ‘ منکرین خدا کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے وہ غور کریں تو دیکھیں تو روز اول سے ہی مشاہدہ جاری ہے کہ زندگی سے زندگی کا سفر جاری ہے ‘کائنات کا چپہ چپہ چھان ماریں ‘غور کرلیں کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں کہ زندگی سے موت نمودار ہوتی ہو ،شروع میں جب زمین آگ برساتے سورج سے الگ ہوئی تو سورج کی طرح دہکتا ہوا جہنم بھی اور پھر اس جہنم پر زندگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ‘بعد میں اس پر زندگی کیسے آگئی سائنس دانوں کے پاس اس سوال کا جواب آج بھی نہیں ہے ‘کائنات پر جب آپ غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک وحدت اور ہم آہنگی نظر آتی ہے ‘اربوں سیارے مقررہ رفتار سے محو سفر ہیں۔
مقررہ اوقات پر مشرق سے نکل کر مغرب کی طرف جا رہے ہیں،زمین پر مقررہ وقتوں پر مخصوص موسم آتے ہیں ‘انسان کا دل ایک منٹ میں72بار دھڑکتا ہے ‘پھیپھڑے ایک منٹ میں سترہ اٹھاراں بار پھیلتے سکڑتے ہیں ‘یہ آئین فطرت ہے یہ ترتیب سیاروں اور دھڑکتے دل میں دیکھی جا سکتی ہے اس وسیع و عریض کائنات میں ایک بھی ایسا منظر نہیں ہے جسے دیکھ کر یہ لگتا ہو کہ یہ اتفاقیہ معرض وجود میں آگیا ہوبلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک عظیم پلان کا نتیجہ جو ایک بلند ترین دانش نے سوچا قرآن مجیدکی سورة انبیا میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘کیا منکرین خدا نہیں دیکھتے کہ شروع میں آسمان اور تمام ستاروں کا تکوینی مواد آپس میں ملا ہوا تھا پھر ہم نے اسے الگ الگ کیا اور ہرزندہ چیز پانی (سمندر)سے بنائی کیا وہ اب بھی تسلیم نہیں کرتے ہم نے زمین پر بوجھل پہاڑ ڈال دیئے تاکہ وہ کسی طرف جھک نہ جائے اور ان پہاڑوں میں راستے بناد یئے تاکہ مسافر منزل تک پہنچ سکیں ہم نے آسمان کو ایک مضبوط چھت بنا دیا تھا لیکن لوگ ان آیات کی طرف توجہ نہیں کرتے ‘خالق کائنات نے رات دن سورج اور چاند کی تخلیق بھی کی ہے اور یہ سب اپنے اپنے آسمانوں میں تیر رہے ہیں۔
آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو نظر آئے گا کہ فطرت اپنے اظہار کیلئے بے تاب ہے اس کا حسن نہ صرف کوہساروں ستاروں اور پہاڑوں میں نظر آتا ہے بلکہ حضرت انسان میں بھی پایا جاتا ہے۔اسی فطرت کے تحت انسان ہر وقت خوب سے خوب کی تلاش میں رہتا ہے اور فطرت کے اظہار کا یہی سب سے اچھا انداز بھی ہے ‘آپ بلند و بالا پہاڑوں پر چلے جائیں ،وسیع و عریض ریگستانوں میں ڈیرے ڈال دیں،ہر منظر مکمل اکائی کے طور پر نظر آتا ہے’ خالق کائنات کی کسی بھی تخلیق کا آپ مطالعہ کریں تو جیسے جیسے اسرار کے پردے ہٹتے جائیں گے آپ خالق کائنات کے وجود کے قائل ہوتے جائیں گے میں جو بچپن سے فطرت کے مناظر کا دلدادہ رہا ہوں اس وقت بھی لوک لومڈ(سکاٹ لینڈ)کی سحر انگیز وادی میں بیٹھا خالق کائنات کو یاد کر رہا تھا ‘میرے سامنے دور تک جھیل کا پانی ‘آسمان پر سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی ‘اس آنکھ مچولی کی وجہ سے سطح آب اور وادی پر دھوپ چھائوں کا نرالا کھیل ‘پانی پر سفید خاکستری پرندوں کی قطاریں ‘درمیان میں کہیں کہیں سفید رنگ کے بحری جہاز ‘آسمان پر چھوٹے ہوائی جہاز ‘بادل آئے تو نرم شبنمی پھوار چہروں کو چھوتی گزرتی جاتی ‘دور جھیل کے دوسری طرف سر سبز شادب پہاڑی سلسلہ ‘جھیل کا ہر قطرہ ‘جنگل کا ہرپتا اور ریت کا ہرذرہ خدا کی مدح سرائی میں لگا ہوا تھا۔
مجھے سورة حدید کی پہلی آیت یاد آگئی۔زمین آسمان کی ہر چیز میرے نام کی تسبیح کرتی ہے تم بھی کرو۔یہ سوچ کر میرے ہونٹوں پر بھی حمدو ثناکے زمزے جاری ہو گئے میں بھی وادی کے منظر کا حصہ بن گیا ‘نشہ سرور و جد میری دل و دماغ سے گزرتا ہوا میرے دماغ کے عمیق اور بعید ترین گوشوں تک سرایت کر گیا،میںوادی کے بے پناہ حسن میںمبہوت ہو گیا تھا ‘دنیا سے بے خبر ہو چکا تھا کہ اچانک کسی نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا میں نے مڑ کر دیکھا تو میرے میز بانوں میں سے ایک نوجوان لڑکا ہاتھ میں گرما گرم کافی کا بڑا سا مگ لئے کھڑا تھا ‘وادی کے یخ ٹھنڈے موسم میں گرما گرم کافی میں نے ہاتھ میں مگ پکڑا اور گرما گرم تلخ و شیریں گھونٹ حلق سے اتار لیا ‘نوجوان میرے پاس بیٹھ گیا اور بولا سر یقیناًاس وادی نے آپ کو متاثر کیا ہوگا سر میں خدا کے بارے میں بہت مشکوک ہوں یہاں کے کلچر نے میرے دماغ میں خدا کے حوالے سے بہت سارے سوال اٹھا رکھے ہیں آپ مجھے یقین دلائیں کہ خدا ہے میں نے دنیا کے بہت سارے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے لیکن میں مطمئن نہیں ہوا میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور بولا بیٹا تم نے محمدۖکی زندگی کا مطالعہ کیا تو بولا کہ مسلم غیر مسلم لکھاریوں کی سیرت کی کتابیں مطالعہ کر چکا ہوں ‘میں نے پوچھا کیا آج تک کسی نے بھی یہ کہا کہ محبوب خدا نے ساری زندگی ایک بھی جھوٹ بولا ہو وہ بولا نہیں مسلم غیر مسلم سب مانتے ہیں کہ نبی کریم ۖدنیا کے سچے ترین انسان ہیں جنہوں نے ساری عمر سچ بولا ‘میں نے نوجوان کے کندھے پکڑے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا کیا ایسا شخص جس نے ساری زندگی سچ بولا ہو کسی جھوٹے خدا کی تبلیغ کر سکتا ہے ‘نوجوان کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں پھر شکرانے کے موتی اس کی پلکوں پر لرزنے لگے اور وہ بولا آج مجھے واقعی میرے سوال کا جواب مل گیا محبوب خدا جنہوں نے ساری عمر سچ بولا وہ خدا کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں۔میں پھر وادی کے لازوال حسن کی طرف متوجہ ہو گیا جس کا چپہ چپہ خدا کی کبریائی کا کھلم کھلا اظہار کر رہا تھا۔