کراچی: اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF)کے بانی چیرمین ناہیدحسین نے کہاہے کہ خدا نے پاکستانی قوم کی دعائوں کے ثمرات میں موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف جیسا جفا کش ،بہادر،غازی سپاہی دیا جس نے حقیقی معنوں میں ستارئہ جرات کی لاج رکھی اور ملک و ملت کو صفحہء ہستی سے مٹانے کیلئے راء موساد اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کے منصوبوں کو متحرک کرنے والوں کو ایک مثالی پستی کی طرف دھکیل دیااور شمالی وزیرستان کے بیشتر علاقے ان نام نہاد طالبانوں سے خالی کرالئے جس نے یورپ اور امریکہ کے کلیسائوں کو ایک مظبوط دھچکا دیا ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ناہید حسین نے مزید کہا کہ جنرل راحیل شریف کے اس جرات مندانہ فیصلے سے کافی حد تک پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہوا اور دوسرا یہ کہ ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے شہر کراچی میں راہ چلتے شہریوں کو خونی درندے بلا خوف و خطر اندھا دھند فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار کر بڑے اطمینان سے گاڑیوں میں بیٹھ کر یہ نا معلوم افراد عوام کے سامنے فرار ہوجاتے تھے اور کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ سیکورٹی اداروں کو حقیقت سے آگاہ کیا جائے شاید اسکی اصل وجہ یہ تھی کہ سیکورٹی اداروں کا رویہ بھی کچھ مشکوک و معیوب رہا ہو۔
کیونکہ کئی مقامات پر ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ کسی مجرم کے خلاف اگر کسی شہری نے تھانے میں اپنے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے تحفظ جان و مال کی غرض سے درخواست دی تو اگلے ہی لمحے درخواست دہندہ کو مجرم کی طرف سے کال موصول ہوجاتی تھی کہ ہمارے خلاف درخواست دینے کا انجام تو پتہ ہے نا! تاہم آپ کے پاس اتنا وقت ہے کہ درخواست واپس لے لو! یا پھر کسی دکان سے اپنی مرضی کا کفن خریدو!۔
انہوں نے کہا کہ جب معاشرتی برائیوں کی بیل کو اس قدر پروان چڑھانے میں محافظ ہی مشکوک کردار کے مالک بن جائیں تو پھر انصاف کی بھیک سے موت بہتر معلوم ہوتی ہے،ناہید حسین نے کہا جنرل راحیل شریف کے آنے سے افرا تفری کی فضا کے بادل منڈ لاتے تھے وہ کافی حد تک چھٹ چکے ہیں مگر یہاں اس بات کو بھی زیر غور رکھا جائے کہ آگ پر مٹی ڈال کر جب کوئی انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ میں نے فتح حاصل کرلی ہے تو یہ سوچ بہت بڑے پچھتاوے کو بھی جنم دے سکتی ہے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ حقیقی امن کو وجود میں لا کر پاکستانی قوم کے دلوں میں تا حیات قائم رہنے کیلئے معاشرتی برائیوں کو سایہ فراہم کرنے والے درختوں کی شاخوں کو نہیں بلکہ ان تنا ور درختوں کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا جائے یعنی ان سہولت کاروں کو جو معاشی دہشت گردی میں بھی ملوث ہیںتو قدرِ بہتر رہے گا ،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مقصد صاف واضح ہے کہ چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے یا انہیں مقابلوں میں مارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کے اصل سرپرستوں کو چاہے وہ کوئی بھی ہو انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے اور انہیں سرِ بازار لٹکا یا جائے۔
ناہید حسین نے آخر میں کہا ماڈل ایان علی کو بھی فی الحال چھوٹ دی جارہی ہے کیونکہ اسے تحفظ فراہم کروانے والوں کا تعلق ایوانِ اقتدار سے ہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپریشن ایک گول دائرے میں چل رہا ہے جو گھوم پھر کر وہی آجاتا ہے جہاں سے شروع کیا گیا تھا،ایسی صورتحال میں آخر حساس ادارے کیا کریں،سوائے اس کے کہ وہ انتظار کرتے رہیں کہ ریاست اور حکمران سب ایک پیج پر ان سے آ ملے،کیونکہ اب اگر آپریشن جاری ہے تو پھر اس بات کی توقع کہ ملزمان اپنے انجام کو پہنچیں گے یہ صرف ایک خواب تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت نہیں کیونکہ ملزمان کو پناہ دینے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ،دیکھتے ہیں کیاہوتا ہے؟۔