تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مسیحائے اعظم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری کو آٹھ دن سے زیادہ ہو چکے تھے۔ مرض کی شدت اور حرارت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔ مرض اورحرارت کی شدت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا مختلف کنوئوں کے سات مشکیزے لا کر مجھ پر بہائو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگن میں بٹھا دیا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک پر اتنا پانی ڈالا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بس بس کہنے لگے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ آرام محسوس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں جا کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت کہ اُنہوں نے انبیا کی قبروں کو مسجد بنا لیا تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اُس کی پوجا کی جائے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ بدلہ لے لے اور اگر کسی کی بے آبروئی کی ہو تو یہ میری آبرو حاضر ہے وہ بدلہ لے لے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دمک میں سے جو کچھ اللہ اُسے دے دے یا جو کچھ اللہ کے پاس ہے اُسے اختیار کر لے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کر لیا۔ ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ یہ بات سن کر حضرت ابو بکر بہت روئے اِ س پر ہمیں بہت تعجب ہوا حضرت ابو بکر نے فرمایا ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان۔ لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ بذاتِ خود شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور ابو بکر ہم میں سب سے زیادہ صاحبِ علم تھے۔
پھر سرور ِ کونین نے فرمایا مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحبِ احسان ابو بکر ہیں اور اگر میں اپنے خدا کے علاوہ اپنے خدا کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلیل بناتا دن بدن مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ لیکن بیماری کی شدت کے باوجود وفات سے چار دن پہلے جمعرات تک تما م نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہی پڑھاتے رہے ۔ لیکن عشاء کے وقت مرض کی شدت اِتنی بڑھ گئی کہ مسجد جانے کی طاقت نہ رہی ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے کہا نہیں یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل فرمایا اور اٹھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہوگئی۔
Muhammad PBUH
اِس کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ بھی کوشش کی لیکن غشی طاری ہو گئی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگو ں کو نماز پڑھا ئیں چنانچہ ان ایام میں حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی آپ ۖ کی زندگی مبارک میں ان کی پڑھائی جانے والی نمازوں کی تعداد ستر ہ ہے ۔ دو دن پہلے ہفتہ یا اتوار کو سرور دو عالم کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی تو دو آدمیوں کے ساتھ چل کر مسجد آئے اس وقت حضرت ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارے سے فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بائیں طرف بیٹھ گئے ۔ اب حضرت ابو بکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابو بکر کی اقتدا کر رہے تھے اور صحابہ کو تکبیر سنا رہے تھے اتوار کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام آزاد کر دئیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس 7 دینار تھے وہ صدقہ کر دئیے ہتھیار مسلمانوں کو ہبہ کر دئیے ۔ رات کو حضرت عائشہ نے اپنا چراغ ایک عورت کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ اپنی کپی سے ہمارے چراغ میں گھی ٹپکا دو ۔ شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ صدقہ کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذرہ مبارک ایک یہودی کے پاس تیس صاع (تقریباً 66کلو) جو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی یہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر اور مالی حالت کا حال تھا پھر عاشقان ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے غم ناک ترین صبح طلوع ہوئی ۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ سوموار کی صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نمازِ فجر میں مصروف تھے اور حضرت ابو بکر امامت فرما رہے تھے کہ اچانک شہنشاہِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضر ت عائشہ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور اپنے پروانوں صحابہ کرام پر نظر ڈالی اور مسکرائے حضرت ابو بکر یہ سمجھے کہ آپ ۖ نما ز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں لہذا وہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے ۔ عاشقانِ رسول ۖ سرور کونین ۖ کے اِس خوشگوار اچانک ظہور سے بہت خوش ہوئے اور یہ چاہا کہ آقائے دو جہاں کی بیمار پُرسی کے لیے نماز توڑ دیں لیکن نبی کریم ۖ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو پھر حجرے کے اند رتشریف لے گئے اور پردہ گرالیا ۔شافع ِ محشر پر اِس کے بعد کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا ۔ اِس کے بعد جب دن چڑھ گیا تو چاشت کے وقت آپ ۖ نے جگر گوشہ رسول ۖ اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ کو بلایا اور اُن کے کان میں سر گوشی کی تو لاڈلی صاحبزادی رونے لگیں تو محسن ِ انسانیت ۖ نے پھر آپ کو بلایا اور کان میں سرگوشی کی تو حضرت فاطمہ مسکرانے لگیں۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر جگر گوشہ رسول ۖ نے فرمایا کہ پہلی بار بابا جان ۖنے فرمایا کہ آپ ۖ اِسی مرض سے وفات پا جا ئیں گے تو یہ سن کر میں روئی تو پھر آپ ۖ نے سر گوشی کرتے ہوئے بتایا کہ اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپ ۖ کے پیچھے جائوں گی تو اِس بات پر میں ہنسی رسول اللہ ۖ نے حضرت فاطمہ کو یہ بشارت بھی دی کہ آپ جنت میں تمام خواتین کی سردار ہونگیں ۔ نبی کریم ۖ اِس وقت شدید کرب سے دو چار تھے آپ ۖ کی تکلیف بیٹی سے برداشت نہ ہوئی بے ساختہ پکار اُٹھیں ہائے ابا جان کی تکلیف تو شہنشاہِ دو جہاں ۖ نے فرمایا تمھارے ابا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں پھر آپ ۖ نے نوجوانوں کے سردار حسن اور حسین کو بلا کر چوما پیار کیا ازواج مطہرات کو بلایا اور اُنہیں وعظ و نصیحت کی ۔ مرض کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا ۔اور خیبر میں جو زہر آپ ۖ کو کھلایا گیا تھا اُس کا اثر بھی شروع ہو گیا تھا پھر آپ ۖ نے وصیت کی نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال با ر بار یہ الفاظ دہرائے ۔ درد کی شدت بڑی اور پھر نزع کی حالت شروع ہو گئی ۔حضرت عائشہ نے آپ ۖ کو اپنے اوپر ٹیک لگوا دی اِسی دوران عبدالرحمٰن بن ابو بکر آپ ۖ کے پاس آئے اُن کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی نبی کریم ۖ نے مسواک کی طرف دیکھا آپ ۖ نے خواہش کا اظہار کیا تو حضرت عائشہ مسواک نرم کرکے دی ۔ آپ ۖ نے مسواک کی سامنے کٹورے میں پانی تھا اُس سے چہرہ مبارک پونچھتے جاتے اور فرماتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں موت کے لیے سختیاں ہیں ۔پھر انگلی اٹھائی چھت کی طرف نگاہ کی اور ہونٹوں پر حرکت ہوئی ۔ہماری ماں عائشہ نے کان لگایا تو آپ ۖ فرمارہے تھے ۔ان انبیاء صدیقین شہدا اور صالحین کے ساتھ جنہیں تو نے انعام سے نوازا یا اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے اے اللہ رفیق اعلیٰ ۔ آخری فقرہ شہنشاہ ِ دو جہاں ۖ نے تین بار دہرایا اور روح پرواز کر گئی ہاتھ مبارک جھک گیا اور شہنشاہِ دو عالم ۖ ساقی کوثر ، شافع محشر نبیوں کے سردار ۖ حضرت فاطمہ کے بابا جان رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ انا للہ و انا اِلیہِ راجِعون۔