تحریر : شاہ بانو میر اللہ سبحان و تعالیٰ اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ جسے پسند کرتے ہیں وہ آپﷺ ہیں٬ اور ان کی قسم کھائی گئی، آپکو عرش کی سیر کروائی گئی اور بے شمار ایسے مناظر دکھائے گئے کہ جو کسی اور نبی کو نہیں دکھائے گئے، 5 نمازوں کا تحفہ بھی پہلی مرتبہ ملا بعد میں مکمل حرکات و سکنات کے ساتھ نمازوں کی ترتیب صرف آپکو ملی ، اللہ نے آپﷺ کو چنا اور قیامت تک کیلئے سب کیلئے باعث تقلید بنا دیا، آپ سے محبت کرنے والے تو ہر دور میں ہی رہے ہیں ان کے سر کاٹے گئے، جسمانی تشدد کر کے آپ سے دور جانے کو کہا گیا، ان سب کی قربانیوں اور آپﷺ کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہی تو 1400 سال سے متحرک اسلام ہم تک پہنچا اور ہم کتنے خوش ،نصیب کہ آج قرآن پاک کے ساتھ ساتھ پیارے نبیﷺ کی احادیث کو پڑھنے سمجھنے کے ساتھ ساتھ عمل کیلئے دعا بھی کر رہے ہیں٬ آپ کی زندگی کے ہر رخ کو تحریری سانچے میں ڈھالنے کا کام اللہ پاک نے امام بخاری کو سونپا جنہوں نے عمر بھر سفر کئے اور آپﷺ کی زندگی کے ممکنہ ہر رخ کو تلاش کیا تحقیق کی اور پھر اللہ سے مدد مانگتے ہوئے صحیح بخاری کی صورت ایسی کتاب ترتیب دی کہ جو قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ معتبر اور پڑہی جانے والی کتاب ہے۔
مجھے اللہ پاک نے یہ اعزاز دیا کہ محترمہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی استادوں کی استاذہ ہیں وہ ان کی حدیث کی کلاس کو اٹینڈ کیا، سبحان اللہ استاذہ کی ادائیگی اور پھر وضاحت سننے سے تعلق رکھتی تھی ، خوش نصیب ہیں وہ جنہیں اس دور میں استاد میسر ہیں، اور وہ اپنی ذات کے غرور سے اٹھ کر، میں کچھ نہیں مجھے سیکھنا ہے یہ سوچ عاجزی لا کر انہیں استادوں سے جوڑتی ہےاور اس دورِ ظلمت میں ان سے سیکھ کر حقیقی سچا مکمل علم لے رہے ہیں ، آئیے اللہ رب العزت سے توفیق مانگتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ سادہ آسان الفاظ میں ہم بھی علم کے اس سمندر کی گہری تہہ میں جا کر کچھ””قیمتی عمل کے سیپ”” حاصل کر سکیں جو ہماری دنیا کے ساتھ آخرت سنوارنے کا باعث بن سکیں آمین۔
احادیث وہ اقوال حرکات و سکنات ہیں جو آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں ساتھیوں کے سامنے 3 انداز سے ظاہر کیں حدیث کی 3 اقسام ہیں ،،، 1 قولی،، 2 فعلی ،، 3 تقریری قولی!! جو بات آپﷺ نے از خود بیان فرمائی فعلی!! جو کام آپﷺ نےکر کے دکھایا تقریری!! کسی صحابی نے کوئی کام کیا آپﷺ نے اس کی تصحیح کر دی یا مسکرائے یا خاموش رہے، جس کا مطلب آپکو پسند آیا ہے، حدیث کے دو اہم حصے ہوتے ہیں، سند متن سند وہ معتبر حوالے کہ جن کے نام تاریخ اسلام میں یقین پر مبنی ہیں، جن کی بات پر شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا متن حدیث کا وہ حصہ جو اس حدیث کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔
حدیث کو ابتدائی دور میں اس خیال سے شائد اکٹھا نہیں کیا گیا کہ قرآن پاک کا انقلابی پیغام ہر بار ایک نیا حکم اور نئے انداز سے سامنے آتا تھا، جس نے صدیوں پرانی جہالت کی زنجیروں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ، اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا پرانی عادات کو ترک کرنا بہت مشکل تھا، اس لادینیت کے گرد وغبار کو ہٹانے کی طاقت صرف قرآن و حدیث جیسے علم میں ہے، اس لئے پہلے توجہ صرف قرآن پاک کی تبلیغ اور اس کے پھیلاؤ اس کی حفاظت پر رکھی گئی ، اللہ پاک نے ہر بشر کی تقدیر اس کی پیدائش، اعمال ، موت ، رزق، لوح محفوظ میں لکھ کر رکھ دیا ہے۔
لوح محفوظ میں مقرر کئے اندازے کے تحت ہی محدث اکبر امام بخاری کو وقت پر دنیا میں تشریف لانا تھا، ان کا کام قیامت تک ان کے اخلاص کی پہچان بن کر قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ پڑہی جانے والی کتاب بن کر محفوظ ہو گیا، امام بخاریؒ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آج تک حرام لقمہ نہیں کھایا، یہ بات وہ بڑے وثوق سے کہتے تھے، ایک اہم بات کہ بخاری شریف قرآن پاک کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کیسے بنی؟ امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ احادیث کو جمع کرنے کیلئے جو طویل و عریض سفر کئے اور باریک بینی سے حتی الوسع مکمل تحقیق کر کے احادیث کو جمع کیا ، ان کو جمع کرنے کے بعد ہر حدیث جو اس مجموعے میں ہے وہ لکھنے سے پہلے انہوں نے غسل کیا اور 2 نفل ادا کر کے اللہ سے رجوع کر کے پھر اس کو تحریر کیا۔
امام بخاری دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک رات میں کئی کئی بار اٹھتے اور حدیثیں تحریر کرتے ایسے شاہکار ایسے ہی تو تحریر نہیں ہو جاتے جب تک کہ اللہ کی رضا اور ماں کی دعا ساتھ نہ ہو ، امام بخاریؒ نے سند کو سلسلہ وار تحقیق سے یوں ایک ساتھ لڑیوں پرو کر چھوٹی سے چھوٹی حدیث اور بڑی سے بڑی حدیث کو اکٹھا کیا کہ تسلسل حیران کر دیتا ہے ، صحیح بخاری کو پڑھنے کیلیۓ جو طالبعلم شوق رکھتا ہو اسے اللہ سے مدد مانگ کر اسے استاد سے پڑھنا چاہیے ، آج ہم ٹوٹے پھوٹے دو حروف پڑھ کر خود کو اہل سمجھ لیتے ہیں کہ ہم قرآن و حدیث جیسے علم کو بھی دنیا کے علم کی طرح لے سکتے ہیں، یہ سوچ سراسر مفروضہ پر مبنی ہے۔
قرآن مجید اور حدیث کا علم سمندر سے زیادہ وسیع اور تحقیق کا متقاضی ہے ، ایسی جرآت کرنا سوائے خود فریبی کے اور کچھ نہیں، اپنے استاد کو وقت کی سب سے بڑی نعمت سمجھتے ہوئے ان سے بھرپور استفادہ اٹھانے کی کوشش کریں، نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر ہر سانس کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں، ناشکرا پن نعمت کا زوال ہے اور شکر گزاری نعمت کا اضافہ ہے، انشاءاللہ جو کچھ استاذہ سے سیکھا ،اللہ پاک کی رضا سے آپ سب تک پہنچانے کی مخلصانہ کوشش کروں گی۔
اللہ پاک مجھے ہر غلطی سے معاف فرمائے اور ہم سب کو بے مقصد بے جاہ تنقید کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے والا بنائے، اب یہ تو ہم پر ہے کہ ہم اللہ کی رحمت اور رسولﷺ کی محبت کیلئے محنت کیلیۓ تیار ہیں؟ اے اللہ !!! ہم سب کو وسیع القلبی سے احادیث سے فائدہ اٹھا کر علم حاصل کرنے والا بنا، اے مالک کائنات !!ہمیں قرآن و حدیث کا وہ سچا علم عطا فرما جو ہم سب کیلئے موجودہ خطرناک تاریک دور میں ہدایت کی روشنی کا ذریعہ بنے ، حدیث کا علم ہماری آنکھوں کو کھول کر””فرقان”” واضح کرے گا اور ہمیں صراط المستقیم پر چلائے۔ آمین۔