یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فَیکوں ربّ ِ کریم نے کائنات کی اسی”ناتمامی”کو دور کرنے کے لیے انسان کو عقل وشعور کی دولت عطا کر کے حکم دیا”ڈھونڈو زمین وآسمانوں میں”۔اقوامِ مغرب نے اسی حکم پر عمل پیرا ہو کر آسمان کی رفعتوں کو چھولیا لیکن ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہے۔ اب یہ عالم ہے کہ جونہی کسی قدرتی آفت کا سامنا ہوتا ہے تو حکمران اسے”اذنِ ربی”کہہ کر دامن چھڑالیتے ہیں اور علماء بَداعمالیوں سے منسوب کر دیتے ہیں البتہ سیکولر ذہن رکھنے والے اصحاب کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سزاہے تو پھر”اشرافیہ”کو ملنی چاہیے جو زمینی خدا بنے بیٹھے ہیں نہ کہ مجبوروں، مقہوروں اور مفلسوں کو۔بجا، مگر اشرافیہ کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے والے بھی تو یہی”مجبور ومقہور”ہی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کے ہنگام”ایلیٹ کلاس”تو اپنے گھروں سے باہر نکلنا پسندہی نہیں کرتی لیکن خطِ غربت سے نیچے بسنے والے بڑے ذوق و شوق سے قطار اندر قطار ووٹ ڈالتے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ فرقوں، گروہوں اور ذات پات میں بٹی قوم ابھی تک شعور کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکی جہاں وہ سو دوزیاں کا ادراک کرتے ہوئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قصور”بتوں”کا نہیں، اُن کو تراش کر”بھگوان”کا درجہ دینے والے ہاتھوں کا ہے اور سزا کے حقدار بھی وہی ہیں۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکمران اشرافیہ بری الذمہ ہے۔ آقاۖ کا فرمان ہے”تُم میں سے ہر ایک راعی (چرواہا) ہے جس سے روزِ قیامت اُس کے ریوڑ کا حساب لیا جائے گا۔ لاریب حساب تو ہو گا، کڑا حساب، حکمرانوں کا بھی اور ایسے حکمران منتخب کرنے والوں کا بھی۔
پتہ نہیں پاکستان کو کِس کی نظر کھا گئی کہ اب یہاں صرف لاشوں کا کاروبار ہوتا ہے۔”انقلابیوں”کو اپنے انقلاب کے لیے لاشوں کی ضرورت، اقتدار پر رال ٹپکانے والوں کو حصولِ اقتدار کے لیے لاشوں کی ضرورت اور نفاذِ شریعت کے علمبرداروں کو خود ساختہ شریعت کے لیے لاشوں کی ضرورت۔ یہ ضرورتیں ابھی درمیان میں ہی ہوتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی آفت ٹوٹ کر کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہے۔
اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیئے انقلابیوں کی تخریب کاریاں ابھی جاری تھیں کہ پنجاب ڈینگی کی زدمیں آگیا۔ منصوبہ ساز ابھی ڈینگی سے دو، دوہا تھ کرنے کے منصوبے باندھ ہی رہے تھے کہ قیامت خیز طوفانوں اور سیلابوں نے آن گھیرا۔ سینکڑوں دیہات صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں، مال مویشی ڈھور ڈنگر سب پانی میں بہہ گئے، سینکڑوں زندگیوں کے چراغ گُل ہوئے اور گھر گھر میں ماتم اور دَر، دَرپہ نوحہ خوانی ہونے لگی۔ لاکھوں بے خانماں مردوزَن بے یارومددگار، کھانے کو کچھ نہ سَرچھپانے کو جگہ۔ افواجِ پاکستان اور ریسکیو 1122 سَر توڑ کوششوں میں مصروف لیکن کو ہساروں سے بلند اور سمندروں سے وسیع تباہی کے آگے بے بَس۔ میاں برادران اب”لنگوٹ”کَس کر میدان میں ہیں۔ ایک ایک دن میں کئی کئی جگہوں پہ دَورے ہورہے ہیں، بلندبانگ دعوے اور وعدے کیے جارہے ہیں لیکن سیلاب زدگان کے لبوں پر تو یہی ہے کہ
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفاسے توبہ ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
Flood
سچ کہا ہے کسی سیانے نے کہ ”ویلے دی نمازتے کو یلے دیاں ٹکراں۔ خادمِ اعلیٰ پچھلے ساڑھے چھ سال سے پنجاب کے بِلاشرکتِ غیرے مالک۔ ان کی اَنتھک کوششوں اور کاوشوں کا بھی ایک زمانہ معترف ۔نکتہ چیں لاکھ کہیں لیکن ہائی ویز، اُوور ہیڈز، میٹر وبس اور بُلٹ ٹرین کی افادیت سے مفر ممکن نہیں لیکن قدرتی آفات کی طرف شایداُن کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ تقریباََ ہر سال شدید بارشوں اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اربوں کا نقصان ہوتا ہے اور انسانی جانوں کا بھی۔ سیلاب کو چھوڑیے کہ یہ مرکز کا مسلۂ ہے لیکن طوفانی بارشوں کا علاج تو ممکن ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور کا یہ عالم کہ تھوڑی بہت بارش سے بھی نقشہ بگڑ جاتا ہے۔
اربوں روپے کی لاگت سے بنائی جانے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، گٹر اُبل پڑتے ہیں اور ہر طرف تعفن پھیل جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ برساتی نالے بھی قبضہ گروپوں کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ سنا تھا کہ ”ڈیزاسٹر مینجمنٹ”نامی کوئی ادارہ بھی ہے۔ پتہ نہیں وہ کہاں ہے اور کیا کر رہاہے۔ تحقیق کہ اِن قدرتی آفات پر قابو پایا جاسکتا ہے، شرط مگریہ ہے کہ خادمِ اعلیٰ اُسی ذوق وشوق سے اِس طرف بھی توجہ دیں جس ذوق وشوق سے وہ اپنے پسندیدہ کاموں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔
محترم وزیرِاعظم صاحب فرماتے ہیں کہ”یہ آفت ناگہانی ہے اور ہمیں اِس کے بارے میں کچھ اندازہ ہی نہیں تھا۔ عرض ہے پاکستان میں پہلا سیلاب 1950 ء میں آیا جس میں لگ بھگ ایک ہزارگاؤںتباہ ہوئے۔ پھر 1955ء میںسیلاب آیا جو سات ہزار دی ہات بہالے گیا۔ تب سے اب تک 21 بڑے سیلاب آچکے ہیں اور ہر بار تباہی و بربادی کے وہی مناظر ہوتے ہیں جو آجکل نظر آرہے ہیں۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سیلاب ہمیشہ ایسے ہی تباہی مچاتے رہیں گے۔ وجہ یہ کہ سیلابوں کی روک تھام کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ دریاؤں پر کثرت سے ڈیم بنائے جائیں لیکن ہماری جمہوری حکومتیں ڈیم بنانے میںکبھی بھی سنجیدہ نہیں رہیں۔
بھارت میں ہزاروں ڈیم بن چکے اور سینکڑوں زیرِ تعمیر لیکن پاکستان میں اوّل تو کسی حکمران کا اِس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اور اگر دھیان جائے بھی تو سیاست کی نظر ہو جاتا ہے۔ ایوبی دَورِ آمریت میں وار سک ، منگلا اور تربیلا سمیت سات بڑے ڈیم بنے اور پرویز مشرف کے دَور میں بھی سات چھوٹے ڈیم پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ اگر آمر پرویز مشرف اپنے دَور میں ڈنڈے کے زور پر کالا باغ ڈیم بنا جاتے تو شاید اپنے گناہوں میں کچھ کمی کر لیتے لیکن اُنہوں نے بھی ”سیاست زدہ”ہو کر کالا باغ ڈیم بنانے سے توبہ کرلی۔نواز لیگ ہمیشہ سے ہی کالا باغ ڈیم بنانے کے حق میں تھی لیکن قومی وملّی یکجہتی کا بہانہ بنا کر راہِ فرار اختیار کرتی رہی۔ اب بھی اگر کالا باغ ڈیم کی رَٹ چھوڑکر چھوٹے ڈیموں کا جال بچھا دیا جائے تونہ صرف بھارت کی آبی جارحیت سے نجات مل سکتی ہے بلکہ لوڈشیڈنگ پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔