برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا سہرا اولیاء کرام کے سر ہے۔ انہیں کی تبلیغی کاوشوں نے برصغیر کے بت کدے کو توحید ایزدی کا گہوارہ بنایا۔ یہ اہل اللہ کی صدائے حق ہی تھی جس نے اس خطے کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا۔
یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے سرزمین ہند میں سجدوں کی تخم ریزی کی۔ انہیں کی تابانیوں اور ضوفشانیوں نے شبستان ہند کو ایوان صبح بنایا۔ انہیں کی آہ صجگاہی سے سوزو گداز کے لشکروں نے انسانی قلوب و اذہان کو مسخر کیا، اس ایمانی اور روحانی تحریک کے وہی حضرات وارث قرار پائے جن کی صحبت اکسیر سے کم نہیں ہوتی اور جن کا حرف سوز اور کلمہ تاثیردل کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے۔
شیخ المحدثین جنید زماں حضرت پیر سید محمد جلال الدین شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا شمار ایسی ہی جلیل القدر شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ ١٩١٥ء کو منڈی بہائوالدین کے ایک قصبہ بھکھی شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت پیر سید محمد عالم شاہ صاحب ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب ٣٠ واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم رحمة اللہ علیہ سے جاملتا ہے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں، آپ کی عمر ابھی چار سال ہی تھی کہ چیچک کی وجہ سے بصارت سے محروم ہوگئے۔ مگر اللہ نے آپ کو بصیرت کے بے پناہ ذخائر عطا فرمائے تھے۔ بصارت سے محرومی آپ کو علمی دنیا کی جادہ پیمائی سے روک نہ سکی۔ چنانچہ آپ نے حضور پور ضلع سرگودھا سے قرآن مجید حفظ کیا۔
آپ نے ١٩٢٦ ء میں تحصیل درسیات کا آغاز کیا، جامعہ نعمانیہ امر تسر اور جامعہ فتحیہ اچھرہ سمیت دیگر کئی مدارس میں دس سال تک علوم دین سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ اور فنون درسیات میں مہارت تامہ حاصل کی۔ آپ نے ١٩٤٦ء میں میں دورۂ حدیث شریف کے لئے برصغیر کی تاریخی اور معیاری درسگاہ جامعہ مظہرالاسلام بریلی شریف میں داخلہ لیا وہاں آپ نے صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی اور محدث اعظم حضرت مولانا سردار احمد رحمة اللہ علیہما سے کتب حدیث پڑھیں۔ آپ نے درجہ حدیث کے امتحان میں جامعہ بریلی شریف میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ حضرت امام احمد رضا خان رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزند جلیل حضرت مفتی مصطفی رضا صاحب رحمة اللہ علیہ نے آپ کو سند تکمیل کے ساتھ روایت حدیث کے لیے سند اتصال بھی عطا فرمائی اور آپ کو مزید چند ماہ کے لیے اپنے پاس ٹھہرا کر فتوی نویسی کے لیے خصوصی تربیت فرمائی اور سلسلہ قادریہ رضویہ میں اجازت و خلافت سے بہرہ ور فرمایا۔
آپ اعلیٰ حضرت شرقپوری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اعظم حضرت پیر سید نور الحسن بخاری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے شیخ کامل نے اس جوہر یگانہ کو مزید چمکایا اور آپ کو روحانی منازل طے کروائیں۔ حضرت پیر سید چراغ علی مراڑوی (والٹن )رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی آپ کا گہرا تعلق خاطر تھا۔
آپ کے شخصی خاکہ میں جو نقش سب سے زیادہ اجاگر تھا وہ عشق رسول ۖ تھا، بارگاہ نبوت کے ساتھ آپ کو نسب کے علاوہ نسبت خاص بھی حاصل تھی، اس کے ظہور کا مشاہدہ کرنے والوں نے کئی بار مشاہدہ کیا چنانچہ آپ کے رفیق خاص استاد العلماء حضرت علامہ مولانا محمد نواز صاحب نے بیان کیا کہ ” جب ہم بریلی شریف میں پڑھتے تھے تو دوران اسباق شاہ صاحب پریشان رہنے لگے میں نے سبب پوچھا تو فرمانے لگے معلوم نہیں ہمارا دورہ حدیث پڑھنا سرکار دو عالمۖ کی بارگاہ میں قبول بھی ہے یا نہیں۔ بھوڑ محلہ پیلی بھیت روڈ بریلی کی مسجد کے حجرہ میں ہم مقیم تھے۔ ایک صبح بیدار ہوئے تو شاہ صاحب بے حد خوش تھے میں نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا آج رات سید عالم ۖ نے کرم فرمایا ہے۔ تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارا دورۂ حدیث پڑھنا اور تمہارے اساتذہ کا پڑھانا دونوں قبول ہیں۔
آپ ایک حقیقی صوفی اور ایک کامل ولی تھے۔ علمی دنیا میں بھی آپ آفتاب نصف النہار کی طرح رخشندہ رہے۔ آپ ایک عظیم محدث، یگانہ روز گار فقیہ، بیدار مغز مفتی ، نامور شیخ القرآن، زبردست اصولی، تاریخ ساز مدرس، نکة ور خطیب اور راست فکر مصلح تھے۔ آپ کو حافظ علوم عقلیہ و نقلیہ اور حافظ الحدیث والقرآن کے لقاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپ کی پوری زندگی نسبی فضلیت اور کسبی عظمت کے جلو میں گذری۔ صداقت آپ کی زبان تھی، متانت ہم نشیں تھی، حسن اخلاق آپ کے ماتھے کا جھومر تھا، حسن معاملہ آپ کے ہمر کاب تھا ،ہمت آپ کا تکیہ تھی ،جرأت آپ کا عصاتھی، بصیرت آپ کی جلیس تھی، فقاہت آپ کی مشیر تھی، تقوی آپ کا سائبان تھا، عشق رسولۖ آپ کا پیش رو تھا۔ ذہانت کو آپ سے انس تھا، استقامت آپ کے ہم قدم تھی، اِفتا کو آپ پے ناز تھا تدریس کو آپ پے فخر تھا، منطق وفلسفہ آپ کے رود خیال کے ارد گرد خیمہ زن تھے معانی و بیان ان کے لوح فکر کی تحریریں تھیں، فقہ ان کے مطلع معارف کا ہلال تھی، علم حدیث ان کی کشت افکار پر برسنے والی بارش تھی، علم تفسیر آپ کے لئے نسیم شوق تھا۔
آپ کے پاس حسن صورت بھی تھا حسن سیرت بھی، رنگ لفظ بھی تھا معنی نور بھی، نشتر تحقیق بھی تھا اور شبنم تفہیم بھی، آہ صبحگاہی بھی تھی اور ذوقِ خود آگاہی بھی۔
آپ کے سینہ معرفت گنجینہ میں روز اول ہی سے اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے بھرپور کام کرنے کاجذبہ موجزن تھا۔ اس عظیم مقصد کے لئے آپ نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ چنانچہ آپ نے شیخ کامل کے حکم پر ١٩٤١ء میں اپنے قصبہ بھکھی شریف (منڈی بہائوالدین) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کا نام جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ تجویز کیا گیا۔ یہ صرف ایک جامعہ ہی کی بنیاد نہیں تھی بلکہ چھیاسٹھ سالوں پر محیط تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ ملک کے طول و عرض میں اور بیرون ملک پھیلے ہوئے بیسیوں مدارس اور مراکز کا سنگ بنیاد تھا۔
آپ نے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے کارواں کو سوئے منزل رواں دواں کیا۔ خدا جانے کتنی بابرکت وہ گھڑی تھی جب گوندل بار کی بنجر زمین کے دامن میں ایک دانش کدہ آباد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس عزم میں کتنا جزم تھا جس نے زمین کی ناہمواریوں کے باوجود گلشن آباد کرنے کا عہد کرلیا؟ اس ہاتھ میں کس قدر خوئے خلوص تھی جس نے خشت تاسیس رکھی اس دعا کی اثر کے ساتھ کتنی ہم آہنگی تھی جو جشن افتتاح میں مانگی گئی۔
ایک چھوٹی سے بستی ہے سادہ سا ماحول ہے پس ماندہ علاقہ ہے، سہولتوں کا فقدان ہے مگر معمار بڑا دل نواز ہے۔ وہ حرص و ہوا سے دور جہان استغنا کا باسی ہے وہ این و آن کے خوف سے بے نیاز ہو کر ایک علمی فکری اور روحانی انقلاب کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے کمرہمت باندھ چکا ہے۔
پھر کیا تھا؟ایک ولولہ اٹھا۔نگاہیں اس طرف اٹھنے لگیں قدم اس سمت بڑھنے لگے، دل اس جانب جھکنے لگے۔ خیالات بدلنے لگے۔ ذہن جاگنے لگے۔ دانش بٹنے لگی، روشنی پھیلنے لگی۔ مزاج سنجیدہ ہوئے شعور پختہ ہوا۔ علم کی برکھا برسنے لگی معرفت کے جام چھلکنے لگے۔ کہیں اسرار قرآن پر بحثیں ہیں، کہیں نکات حدیث پر تبصرے ہیں کہیں اصلاح اعمال زیر بحث، کہیں اصلاح احوال موضوع سخن، کہیں مطالعہ ہے کہیں تکرار ہے۔ کوئی کسی کونے میں دیا جلائے رات کے گذر جانے سے بے خبر ہے کوئی کسی گوشے میں آنکھوں کو محو خواب کرنے کی بجائے محو کتاب کیے ہوئے ہے۔
امن و آشتی کا دور دورہ ہے۔ سکون کی خیرات بٹ رہی ہے۔ دن اور راتیں قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسولۖ کے ماحول میں گذر رہی ہیں آنے والوں کا تانتا بندہا ہوا ہے نزدیک سے بھی آرہے ہیں اور دور سے بھی۔ قلوب و اذہان کی بیڑیاں چارج ہو رہی ہیں۔ کوئی مفتی بن کے لوٹا تو کوئی قاضی بن کر، کوئی مدرس بن کر لوٹا تو کوئی شیخ الحدیث بن کر، کوئی مبلغ بن کے لوٹا تو کوئی مصلح بن کر۔
وقت گزرنے کے ساتھ حضرت پیر سید محمد جلال الدین شاہ صاحب کی اس جامعہ نے انقلاب نظام مصطفےٰ ۖ اور اصلاح معاشرہ کی ایک زور دار تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ نے سینکڑوں ایسے فرزند پیدا کیے جن پر ملک پاکستان کو ناز ہے۔ قبلہ شاہ صاحب نے چوالیس سال تک اس جامعہ کی مسند تدریس پر علم و عرفان کے جواہر لٹائے، آپ سے بالواسطہ اور بلا واسطہ ہزاروں لوگوں نے علم حاصل کیا۔ آج بھی یہ جامعہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
آپ ایک واقعی شیخ طریقت تھے۔ ہزاروں لوگوں کو آپ کے دامن کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے ہدایت نصیب ہوئی آپ تادم آخر دینی مسائل میں عوام و خواص کی رہنمائی فرماتے رہے۔ آپ نے پوری زندگی بلا معاوضہ افتا اور قضا کی ذمہ داری نبھائی ۔ آپ کو فقہی جزئیات پر بڑا عبور حاصل تھا۔ قرآن و حدیث سے استد لال کے سلسلے میں اصابت فکر صلابت رائے کے مالک تھے۔ آپ فتوی لکھاتے وقت حوالہ کی کتابوں کا صفحہ اور سطر تک زبانی بیان کر دیتے تھے برصغیر کے عظیم مصلح حضرت امام احمد رضا خان رحمة اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے فکری امام تھے۔
آپ نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان میں چلنے والی دینی و ملی تحریکوں، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفے میں جاندار کردار ادا کیا۔ آپ نے الحادی قوتوں اور فتنوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا آپ سیاسی طور پر جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ منسلک رہے اور قائد اہلسنت مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت پر بھرپور اعتماد کیا۔آپ ساری زندگی سنت رسول ۖ پر سختی سے کار بند رہے اور اپنے تلامذہ اور متعلقین کو بھی اس کی تلقین فرماتے رہے۔
١٨ نومبر ١٩٨٥ء کو صبح ساڑھے سات بجے آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپ کا مزار مبارک بھکھی شریف منڈی بہائوالدین میں ہے۔حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کو شیخ المحدثین قرار دیا جب کہ علامہ مولانا شاہ احمد نورانی زید مجدہ نے آپ کو ”جلالة العلم و العلمائ”کے لقب سے یاد کیا۔