خیرامت

Allah

Allah

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: تم بہترین امت ہوجو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہو، تم لوگوں کو معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو۔ اللہ، رب العالمین ہے اور اس نے جس نبی کی امت میں ہم کو پیدا کیا وہ رحمت للعالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ بلا تفریق سب کا پالنہار ہے اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات کے لیے رحمت ہیں۔ اللہ نے ہمارے سروں پر خیر امت ہونے کا تاج رکھا اور خیر و صلاح کی دعوت کی ذمہ داری دی۔

مذکورہ آیت کریمہ میں ”اخرجت للناس”آیا ہے ”الناس” عام ہے اس کے تحت ہر انسان شامل ہے گورا ہو یا کالا، عربی ہو یا عجمی، ہندی ہو یا ایرانی، ایشیائی ہویا افریقی، پورپی ہو یا امریکی، سب ہمارے مدعو ہیں اور سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو داعی بنایا ہے۔

خیر امت ہونے کے اعتبار سے ہماری ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں ، ہر وقت اور ہر جگہ ہم خیر کی دعوت دینے والے ہیں، خواہ دنیا کے جس حصہ میں ہوں، ہر آنے والا ہمارا مدعو ہے، ہماری ذمے داری ہے کہ دعوت کے فرائض سے ہم کبھی غافل نہ رہیں، ہر آنے والا اور ہم سے ملنے والا، خواہ اپنا ہو یا پرایا، ہر ایک کے ساتھ ہمار ا سلوک داعیانہ ہونا چاہیے اور حسن خلق اور حکمت و موعظت کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ ہونا چاہیے؛ کیوں کہ حسن خلق اور حکمت و موعظت کے بغیر ہم دعوت کے فرائض ادا نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ترجمہ: تم بندوں کو رب کے راستے کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ دعوت دو۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دعوت کا طریقہ بتایا کہ داعی جب اپنے مدعو سے گفتگو کرے تو حکمت اور دانائی کے ساتھ گفتگو کرے، ایسی گفتگو نہ کرے جس کی وجہ سے مخاطب نفرت کرنے لگے، اچھی باتوں کو اچھے اور دلکش انداز میں پیش کرے، تا کہ مخاطب پوری توجہ اور محبت سے سنے اور قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے۔

انداز دعوت ایسا ہو کہ مدعو آپ کی بات قبول کرنے پر مجبور ہو جائے، دعوت میں حکمت کے استعمال کے یہی معنی ہیں۔ آپ کا مدعو اگر کوئی معقولی شخص ہو تو داعی کو چاہیے کہ اپنی گفتگو معقولی انداز میں پیش کرے جو عقل کو از سر نو غور کرنے اور پھر قبو ل کرنے پر مجبور کر دے۔ یوں ہی مدعو اگر عاشق مزاج اور درد الفت کا گرفتار ہو تو داعی کو چاہیے کہ اس عاشق مدعو سے گفتگو کے وقت ایسے واقعات لائے جو اس کی محبت کو خالص بنادے اور اس کے اندر عشق الٰہی کی شمع روشن کردے۔

داعی جس قدر حکمت، مواعظ حسنہ اور حسن خلق کا جامع ہو گا اس کی دعوت اسی قدر مؤثر اوردیر پا ہوگی۔ دعوت کے میدان میں داعی کو پریشان کن اور تکلیف دہ مراحل سے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے ایسے مواقع پر صبرکے ساتھ جمے رہنا ضروری ہے، کیوں کہ داعی اگر صابر نہیں تو حقیقت میں دعوت کا اہل ہی نہیں، اگرچہ بظاہر شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے سراپا داعی معلوم ہوتا ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: اور جب تم کو مدعو سے بحث ومباحثہ کرنا پڑے تو احسن طریقہ اپناؤ۔ مدعو اگر داعی سے حکمت، مواعظ حسنہ اور حسن خلق کے جواب میں مجادلہ اور لڑائی جھگڑے کے لیے آمادہ ہو جائے تو داعی کو اس وقت بھی احسن طریقے پر قائم رہنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ برائی کا بدلہ بھلائی، سختی کا بدلہ نرمی اور شر کا بدلہ خیر سے دے۔

ایسا نہ ہو کہ داعی بھی غضب ناک ہو جائے اور مدعو کی بدتمیزی کے جواب میں مدعو کے طریقے پر اتر جائے۔ ایسی صورت میں دعوت کا کام مؤثر نہ ہو پائے گا۔ ایسے موقع پر داعی صبر کا دامن نہ چھوڑے، ممکن ہے کہ جس نے آج آپ کے ساتھ بد خلقی کا مظاہرہ کیا ہے، نادم ہوجائے اور حق کی پیروی میں لگ جائے۔

Mohammad Siddiq Madani

Mohammad Siddiq Madani

تحریر : محمد صدیق مدنی