شہادت امام حسین ع کےعلمی و روحانی پہلوؤں پر علامہ اقبال نے مطالب کی گہرائی میں جا کر اظہار خیال کیا ہے، اقبال نے اردو اور فارسی میں اس کا تذکرہ کیا ہے، علامہ اقبال امام حسین (ع) سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ع، ابتدا ہے اسماعیل ع صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
علامہ اقبال کربلا اور امام حسین (ع) کو قربانی اسماعیل (ع) کا تسلسل جانتے ہیں بلکہ ’’ذبح عظیم‘‘ کا مصداق قرار دیتے ہیں، جس کا اظہار انھوں نے اپنے فارسی کلام میں بھی کیا ہے۔ اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
یعنی کہ حضرت اسماعیل (ع) کی قربانی کو جس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسین (ع) کی قربانی ہے اور یہ نکتہ کوئی آگاہ شخص ہی بیان کرسکتا ہے اور یہ قربانی مفہوم کی دلربا تفسیر بھی ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ قربانی حسین (ع) کا اسلام میں کیا مقام ہے اور منشاء ایزدی میں قربانی حسین (ع) کب سے جلوہ گر تھی۔ اقبال کی شاعری میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں: حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
’’بال جبریل‘‘ میں علامہ ’’فقر‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی، سرمایہ شبیری
علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اور حجروں میں بند بزرگان دین کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ میدان عمل یعنی سڑکوں شاہراہوں پر آکر امام حسین (ع) کے پیغام کو عملی بنائیں۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری (ارمغان حجاز)
جس وقت علامہ نے یہ بات کی تو پوری امت محمدی (ص) غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، مگر علامہ انہیں رسم شبیری ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں، اقبال کی فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایران میں ایک مرد جلیل نے رسم شبیری ادا کرکے اس فکر کو دنیا میں جیتا جاگتا مجسم کردیا ہے، آ ج جہاں بھی مسلمان موجود ہیں وہ رسم شبیری ادا کر رہے ہیں یا اسی فکر کو اپنانے کی فکر میں ہیں لیکن اقبال یہ فکر دینے میں فوقیت حاصل کرگئے۔ اس شخصیت امام خمینی (رہ) نے کربلا و امام حسین (رہ) کو آئیڈیل بناکر انقلاب اسلامی برپا کردیا۔ حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب
حکیم الامت علامہ اقبال (رہ) نے نہ صرف کربلا و حقیقی اسلام کو عیاں کیا بلکہ اسلام کے نام و لبادے میں خوارج و یزیدی عناصر چاہے چودہ سال پہلے کے ہوں تا آج کے دور کے یزید امریکہ کے ایجنٹ القاعدہ طالبان و سپاہ یزید کی صورت میں ہوں ان سب کو عیاں کردیا۔ علامہ اقبال کا کچھ کلام باقیات اقبال کے نام سے شائع ہوا ہے، جسے علامہ اقبال نے اپنے کلام کو مرتب کرتے وقت نظر انداز کردیا تھا، اس میں سے دو شعر پیش ہیں: جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہے حق تعالیٰ کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں کیا دُر مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
علامہ اقبال نے اپنے کلام کو وسعت اور زندہ و جاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا۔ علامہ کے فارسی کلام کو پڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ’’نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال نے رموز بےخودی میں’’در معنی حریت اسلامیہ و سیر حادثہ کربلا‘‘ کے عنوان سے امام عالی مقام (ع) کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، علامہ اقبال اسلام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کربلا کا تذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل و عشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پر آئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسین (ع) کو کس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اور کن پہلوؤں پر زور دینا چاہتے ہیں، حسین (ع) کے کردار میں انہیں عشق کا وہ تصور نظر آتا ہے جو ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے اور اس میں انہیں حریت کا وہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب و تاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے آئیے ان فارسی اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں: ہر کہ پیماں باھُوَالمَوجود بست گردنش از بند ہرمعبود رست
’’جو شخص قوانین خداوندی کی اتباع کو مقصود زندگی قرار دے لے اور اسی طرح اپنا عہد و پیمان اللہ سے باندھ لے، اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اور محکومی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘ پہلے شعر کے بعد علامہ نے عشق و عقل کا خوبصورت موازنہ پیش کیا ہے یہ موازنہ پیش کرکے اقبال بتانا چاہتے ہیں کہ امام حسین (ع) اور کربلا کو سمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہیئے امام عالی مقام (ع) کا یہ کارنامہ عقل کی بنا پر ظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرما تھی، اس لئے ایسے لوگ جو عقلی دلائل پر واقعہ کربلا کی توضیح کرتے ہیں وہ ہمیشہ شک و تردید کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو عشق کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر وہ اس نتیجہ پر جاپہنچتے ہیں جہاں علامہ اقبال پہنچ گئے ہیں: عشق را آرام جاں حریت است ناقہ اش را ساربان حریت است
عشق کو کامل سکون اور اطمینان آزادی سے ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘ آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد عشق باعقل ہوس پرورچہ کرد اقبال تمہیدی اشعار کے بعد واقعہ کربلا کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں ’’تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیا کیا۔ آں امام عاشقان پسر بتول (س) سرد آزادے زبستان رسول (ص) اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
عاشقوں کے امام حضرت فاطمہ (س) کی اولاد اور حضور (ص) کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علی (س) ان کے والد بزرگوار ہیں، اس میں’’اللہ اللہ‘‘ وہ کلمہ تحسین ہے جو مرحبا اور شاباش کے معنوں میں آتا ہے، اس کے بعد حضرت علی (ع) کو ‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یاد کیا گیا ہے، یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیت (ع) شناسی پر ایک دلیل ہے، امام حسین (ع) کو’’ذبح عظیم‘‘ کے مصداق قرار دیا ہے، علامہ اقبال قربانی امام حسین (ع) کو قربانی اسماعیل (ع) کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ بہر آں شہزادہ خیرالعمل دوش ختم المرسلین نعم الجمل
روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرم (ص) اپنے دونوں نواسوں کو کندھوں پر سوار کرکے کھلا رہے تھے، آپ (ص) نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اور اس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ سرخ رو عشق غیور از خون او شوخی ایں مصرع از مضمون او امام حسین (ع) کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے، کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اور رعنائی پیدا ہوگئی ہے۔ درمیاں امت آں کیواں جناب ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب
امت محمدیہ (ص) میں آپ (ع) کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے، سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے، اسی طرح امام حسین (ع) کو بھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است
دنیا میں حق و باطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے، اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل شکست و نامرادی سے دوچار۔ چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت راز ہر اندرکام ریخت خاست آں سرجلوہ خیرالامم چوں سحاب قبلہ باراں درقدم برزمین کربلا بارید ورفت لالہ در ویرانہ کارید رفت
جب خلافت کا تعلق قرآن سے منقطع ہوگیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسین (ع) اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پر برسا اور اسے لالہ زار بنادیا۔ تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد
آپ (ع) نے اس طرح قیامت تک ظلم و استبداد کے راستے بندکردیئے اور اپنے خون کی سیرابی سے رہگزاروں کو چمنستان بنادیا۔ بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ است پس بنائے لاالٰہ گردیدہ است آپ (ع) نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اور اس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ’’لا الٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی کے اس مصرع کی طرف: ’’حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسین۔ مدعایش سلطنت بودے اگر خودنکردے باچنیں سامان سفر دشمناں چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزداں ہم عدد
اگر آپ (ع) کامقصد حصول سلطنت ہوتا تو اس بےسروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان و اسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کا لشکر لاتعداد تھا، مگر آپ (ع) کے ساتھ صرف بہتر (72) نفوس تھے، یہاں علامہ نے یزداں کے عدد ’’72‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ سرابراہیم (ع) و اسماعیل (ع) بود یعنی آں جمال راتفصیل بود کربلا کے واقع میں قربانی اسماعیل (ع) کی تفصیل ہے۔ تیغ بہر عزت دین است وبس مقصد اوحفظ آئین است وبس
مومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ و اقتدار کے لئے اٹھتی ہے، ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کا مقصد آئین اور قانون کی حفاظت ہوتا ہے۔ ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نیست پیش فرعونی سرش افگندہ نیست
مسلمان اللہ کے سوا کسی کا محکوم نہیں ہوتا اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔ خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد امام حسین (ع) کے خون نے ان اسرار ورموز دین کی تفسیر کردی اور سوئی ہوئی ملت کو جگایا۔ تیغ لا چو ازمیاں بیروں کشید از رگ ارباب باطل خوں کشید انہوں نے جب ’’لا‘‘ کو بےنیام کیا تو باطل کے خداؤں کی رگوں سے خون جاری ہوگیا۔ نقش الا للہ بر صحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشت
باطل کے خداؤں کو مٹانے کے بعد انھوں نے سرزمین کربلا پر خدا کی توحید کا نقش ثبت کردیا وہ توحید جو ہماری نجات کا سرعنوان ہے۔ رمز قرآن از حسین (ع) آموختیم بہ آتش او شعلہ ھا اندوختیم ہم نے قرآن کے رموز و اسرار امام حسین (ع) سے سیکھے ہیں، ان کی حرارت ایمانی سے ہم نے شعلہ ہائے حیات کو جمع کیا ہے۔ شوکت شام و سحربغداد رفت سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت تار ما ازخمہ اش لرزاں ہنو ز تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز
دنیا میں مختلف مذاہب اور مسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اور مٹ گئیں، لیکن داستان کربلا ابھی تک زندہ ہے، ہمارے تارحیات میں پوشیدہ نغمے اسی مضراب سے بیدار ہوتے ہیں، امام حسین (ع) نے تکبیر کی جو آواز بلندکی تھی اس سے ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اے صبا اے پیک دور افتادگاں اشک ما برخاک پاک او رساں اے صبا! تو ہماری نم آلود آنکھوں کا سلام مرقد امام حسین (ع) تک پہنچا دے۔