جب سے آدم کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا انسانی زندگی عطا کی، اس ہی دن سے یہ طریقہ مقرر کر دیا کہ جس نے پیدا ہونا ہے اُسے اس کے بعد مرنا ہے۔ یہ تسلسل ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے۔ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور مرتے جائیں گے اور ایک روز یہ سلسلہ رک جائے گا جسے قیامت کہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ دوسرا دور شروع ہو گا جو کبھی نہ ختم ہو گا۔ آج ہم جس شخصیت کے یوم پیدائش پر ہم تذکرہ کر رہے ہیں وہ علامہ اقبال ہے، جو ایک روز پیدا ہوئے پھر ایک روز مر گئے۔ پیدا ہونے والے لوگ مر کر موت کے سمندر میں غائب ہوجاتے ، مگر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ لوگ انہیں ان کے دینی اور ملی کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ اپنے دلوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ جن میں ایک علامہ اقبال بھی ہیں۔
علامہ اقبال کئی برس یورپ میں رہے ۔ اس کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ یورپ کی شیطانی تہذیب بھی ان کے سامنے تھی۔ قومیت کے باطل چلن کو بھی قریب سے دیکھا۔ ان کی ترقی کے منازل کا بھی مشائدہ کیا۔ یورپ کی اقلیت پسندی اور فرد کی مادر پدر آزادی کو بھی سمجھا۔علامہ اقبال بھی آخر انسان ہی تھے پہلے وہ عصری ماحول یعنی قومیت کی شاعری کرتے رہے ۔ پھرسوچ کے مختلف مراحل سے گزرے۔ یورپ کی مادی ترقی اور قوموں کے عروج و زوال کو قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کیے گئے واقعات سے تقابلی جائزہ لیا۔ پھر آخر میں ایک وقت آیا کہ قرآن، حدیث اور محبت رسولۖ میںگم ہو گئے۔ قرآنی تعلیمات کے دقیق مطالعہ کی وجہ سے یورپ میں شخصی آزادی، رائج قومی نظام حکومت اور شیطانی تہذیب پر اپنے کلام میں سخت گرفت کی۔ مسلمانوں کو خبردارکیا ۔ اسلام کے آفاقی نظام کو یورپ کے شیطانی نظام کے سامنے متبادل کے طور پر پیش کیا۔
ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلہ اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ہدایات کے مطابق مدینہ میں ایک فلاحی اسلامی ریاست قائم کر کے دنیاکے سامنے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا۔ خلفاء راشدین نے اُسے کامیابی سے چلا کر دنیا کو دکھایا۔ اس کے بعد ٩٩ سال کے اندر اندر مسلمانوں نے اُس وقت عیسایوں کی سلطنت ِروما اور فارس کی مجوسی سلطنت کو اقتدار سے ہٹا کر اسلامی حکومت قائم کر دی۔ یہ اسلامی حکومت ایک ہزار سال تک دنیا میں کامیابی سے چلتی رہی۔ ہر قسم کے دنیاوی علوم میں ترقی بھی کی۔ پھر اُس پر زوال آیا اور واپس عیسایوں نے مسلمانوں کی حکومت پر ریشہ دوانیوں سے قبضہ کر لیا۔ آخر میں ١٩٢٢ء میں مسلمانوں کی عثمانی خلافت پر بھی عیسایوں نے ختم کر دی۔ مسلمانوں کو کئی راجوڑوں میں تقسیم کر کے غلام بنا لیا۔ مسلمانوں میںہر طرف پستی ہی پستی تھی۔ علامہ اقبال نے اس کو شدت سے محسوس کیا۔ مسلمان قوم کو پھر سے اُٹھانے کے لیے تدبیریں کرنی شروع کی۔ علامہ اقبال کا وطن برصغیر تھاجس پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی وہ عیسایوں کے قبضہ میں تھا۔ ہندوستان میں عیسایوںسے آزادی کے لیے تحریک چلی تو ہندو پورے برصغیر پر اپنی عددی اکثریت اور مشترکہ قومیت کی وجہ سے قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر علامہ اقبال نے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے یے علیحدہ وطن کا تصور دیا۔ اسی تصور کی بنیاد پر ١٩٠٦ء پر، آل انڈیا کانگریس کے مقابلہ میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلمان منظم ہونا شروع ہوئے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اسلام کی عظمت کے طرف اپنی اُردو اور فارسی کی شاعری میں دعوت دی۔سوئی ہوئی مسلمان قوم کو جگایا۔ قوموں کے عروج اور زوال کے قصے اپنی شاعری میں بیان کئے۔ کہا کہ مسلمان کبھی بھی غلام رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔
ہندوئوں کے قومیت کے تصور کے بت کو مسلمانوں کے ملت کے تصور کو اس انداز میں پیش کیا کہ برصغیر میں ہر طرف علامہ اقبال کے شعر، مسلمان گنگانے لگے۔ قائد اعظم جو مسلم لیگ کی آپس کے اختلافات سے تنگ ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ ان کو واپس ہندوستان آنے اور مسلمانوں کی جنگ آزادی کی قیادت کرنے پر پر راضی کیا۔ پھر قاعد اعظم نے علامہ اقبال کی سوچ کے مطابق تحریک پاکستان برپاہ کر کے،ا نگریز اور ہندوئوں سے قانونی لڑائی لڑ کر دلیل کی بنیاد پر بغیر جنگ کے، دو قومی نظریہ کے اصولوں پرپاکستان حاصل کیا۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو دین کی بنیاد پر اکٹھا کیا۔ مسلمانوں کو یہ نعرہ دیا کہ پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الااللہ” مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔بن کے رہے گا پاکستان۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔ مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم کا ساتھ دیا۔ دنیا میں سیکولر کے سمندر میں واحد مسلمانوں کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئی۔
علامہ اقبال کو اپنی بصیرت سے معلوم ہو گیا تھا کہ انشاء اللہ پاکستان بن کے رہے گا۔ علامہ اقبال نہ صرف علیحدہ مملکت حاصل کرنے کے لیے فکری بنیا دمہیا کی۔ بلکہ آیندہ اِسے چلانے کے لیے بھی تدبیریں کیں۔ مسلمانوں علماء نے اجتہاد کو بل لکل ختم کر دیا تھا۔ پرانی سوچ پر ہی چل رہے تھے۔ علامہ اقبال کے سامنے فقہ کی جدید تشریع اور زمانے کے حالات کے مطابق ڈالنے کی سوچ تھی۔ اس زمانے میں علامہ اقبال مولانا موددی کا ترجمان ترجمان قرآن رسالہ پڑھا کرتے تھے۔ مولانا موددی اس رسالے میں حکومت الہیا کے قیام کے ضرورت پر قرآن اور حدیث کے روشنی میں مضامین لکھ کر لوگوں کو تیار کر رہے تھے۔ جس کی بنیاد پر مولانا موددی نے بلا آخر ١٩٤١ء لاہور میں جماعت اسلامی بھی قائم کی تھی۔ علامہ اقبالکے ذہن میں تھا کہ فقہ کو جدیدطور پر استوار کرنے کا کام مولانا موددی ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ کا کرنا کے ایک اسلام کے شیدائی ،چوہدری نیاز علی خان صاحب کا علامہ اقبال سے رابطہ ہوا۔ چوہدری صاحب نے جمال پور پٹھان کوٹ میں اپنا ایک قطہ اراضی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔
علامہ اقبال جب دیکھا کہ فقہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک جگہ میسر آ گئی ہے تو مولانا موددی کو خط لکھا کہ آپ اس کام کا بیڑا اُٹھائیں اور حیدر آباد سے پنجاب پٹھان کوٹ پنجاب آ جائیں۔ علامہ اقبال نے مولانا موددی سے وعدہ کیا تھا وہ سال میں چھ ماہ جمال پور پٹھان کوٹ آ کر آپ کی مدد کرتارہوں گا۔مولاناموددی نے علامہ اقبال کی اس دعوت کو قبول کیااور حیدرآباد سے پنجاب کے علاقے جمال پور پٹھان کوٹ شفت ہو گئے اور علامہ اقبال کی اسکیم کے مطابق کام شروع کر دیا۔ اللہ کا کرنا کے اس کے بعد علامہ اقبال اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پھر پاکستان بن گیا اور پٹھان کوٹ بھارت میں رہ گیا تو مولانا موددی پٹھان کوٹ سے لاہور آ گئے۔
صاحبو! یہ ہیں علامہ اقبال کی پاکستان اور اسلام کی خدمات۔ اگر ہمارے حکمران علامہ اقبال کی فکر اور قائد اعظم کے وژن، نظریہ پاکستان پر عمل کرتے، مسلمانان برصغیر کی خوابوں کا پاکستان بناتے ، جو واپس بھارت میں رہ گئے ان کے پشتی بان ہوتے،پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نظامِ حکومت قائم کر دیتے تو پاکستان کے دو ٹکڑے نہ ہوتے ، نہ ہی بھارت ہمیں آنکھیں دکھا تا۔ نہ ہی ہمارے ملک میں دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، ہنگامے، نہ ہی پاکستان آئی ایم ایف کے مقروض ہوتا۔ اللہ کرے موجودہ حکومت مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے اپنے وعدے پور کرے، یہی علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر موجودہ حکمران کے لیے پیغام ہے۔اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔