تحریر : انجینئر افتخار چودھری یہ فنکشنل انگلش ٢ کا امتحانی پیپر ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کا۔موسم خزاں ٢٠١٦ کا یہ پرچہ سوشل میڈیا پر ایک دوست کی پوسٹ سے معلوم ہوا ہے۔اس پر ابھی تک کم ہی لوگوں کی نظر پڑی ہے۔چند ماہ پیشتر میرے ایک دوست مجھے بتا رہے تھے کہ آہستہ آہستہ جنس(سیکس) پر مضامین پڑھائے جائیں گے اور اس کے عوض مختلف این جی اوز بھاری سرمایہ بھی خرچ کریں گی۔اسلام آباد اس قسم کی این جی اوز سے بھرا پڑا ہے ۔جو اس ملک خداداد کے بخئے ادھیڑنے میں سر گرام ہے۔سچی بات ہے اگر آپ فارغ ہیں اور تھوڑی بہت تعلیم رکھتے ہیں تو یہ کام گھاٹے کا نہیں بس اسلام دو قومی نظرئے کے خلاف لکھئے بولئے اور مال بناتے جائے اس کے لئے پہلے آپ کو شہرت کما لینی چایئے۔ ایک بار ایک این جی او نے مجھے بلا لیا بلکہ کسی کو بلایا تھا انہوں نے مجھے سندیسہ دے دیا کہ آپ بھی آ جائیں وہاں حالات حاضرہ پر بات ہو گی۔نیا نیا سعودی عرب سے ڈکٹیٹر کے دھکے کھا کے آیا تھا سوچا چلتے ہیں وہاں جا کر جو بحث چل رہی تھی اس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو اس دنیا میں اگر آگے بڑھنا ہے تو اسے اپنی شناخت ایک نئے نام سے کرانا ہو گی اور وہ اسلامی جمہوریہ کی بجائے جمہوریہ پاکستان کے انم سے ہونا چاہئے۔میری بار آئی تو بہر حال ان کی ٹنڈ پوڑی اٹھوا دی۔
اسلام نظریہ پاکستان اور اس کے وجود پر خاکسار بولا تو پھٹیاں پن کے رکھ دیں۔کھانے کی میز پر میزبان نے گلا کیا کہ تحریک انصاف تو ایک لبرل جماعت ہے آپ کا مو قف پارٹی سے نہیں ملتا جھلتا آپ تو دائیں بازو کے کٹڑ جماعتئے لگتے ہیں۔بات ان کی بھی غلط نہیں تھی کسی نے کہا تھا کہ لوگ جماعت سے نکل جاتے ہیں جماعت ان میں سے نہیں نکلتی اس مسئلے میں سیدی مرشدی مودودی مودوی کے نعرے کل بھی لگائے تھے اور وہ آج بھی دل سے نہیں نکلے۔ ان این جی اوز میں رہ کر یا نئی بنا کر کوئی مال بنانا ہے توآپ کا سوسائٹی میں نام ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے سابق سیکریٹریز منسٹرز سفراء حضرات این جی اوز بنا کر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔
خیر اس موضوع پر کافی لکھا جا چکا ہے پھر کبھی لکھ بھی دیں گے۔مگر یہ جو بات میں کرنا چاہتا ہوں میٹرک کے نوجوانوں سے چند سوالات پوچھے گئے ہیں ان پر بات ہو گی۔ خیر سے باقی سوالات تو ٹھیک ہی ہیں مگر پھر بھی ان سوالات میں کسی جگہ نہیں پوچھا گیا اسلامی پاکستانی ویلیوز کے بارے میں۔ایک سوال جس پر سخت اعتراض ہے وہ سوال ہے۔ سوال۔اپنی بڑی بہن کی شخصیت پر لکھیں مندرجہ ذیل امور کو سامنے رکھتے ہوئے۔ ١۔عمر کتنی ہے۔ ٢۔ جسم کیسا ہے؟جسمانی وضح قطع کیسی ہے ٣۔قد کتنا ہے ٤۔رویہ کیسا ہے
Questions
دیکھا جائے تو ایک جوان بھائی جس کی عمر ١٦ یا ١٧ سال ہے اس سے اس کی بڑی بہن کے بارے میں اس قسم کے سوال کئے جا رہے ہیں۔ایسے سوال تو ضرورت رشتہ کے حوالے سے کئے جاتے ہیں۔ میں ان صفحات میں علامہ اقبال یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا ہیڈ آف ڈیپارٹمینٹ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کس ملک کے باسی ہیں۔نام اقبال کا اور کام اس قدر گھٹیا۔ یقین کیجئے میں بھی ایک بیٹی کا باپ ہوں اور زندگی میں جب اس عمر میں تھا جس میں پرچہ تھا ایک بہن کا بھائی بھی تھا۔میں اس کمرہ ء امتحان میں ہوتا توایک ہنگامہ ہوتا اسلامی جمعیت طلبہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے پنجاب یونیورسٹی میں اس قسم کی خرافات کو داخل نہیں ہونے دیا اس کے کئی معاملات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جمعیت نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اعلائے کلمةالحق میں قوم کو مایوس نہیں کیا۔اگر اسلامی جمعیت طلبہ نہ ہوتی تو باقی کے تعلیمی اداروں کی بات چھوڑیں آپ کی پنجاب ،کراچی یونیورسٹی بیروت کی یونیورسٹیاں بن جاتیں۔
میری جوانی اس تنظیم کے ساتھ گزری ہے میں نے دیکھا کہ یہ صوم و صلوة کے پابند نوجوان جہاں کہیں سرخوں نے شراب و کباب کی محفل سجانے کا سوچا بھی وہیں یہ لوگ پہنچے اور برائی کو ہاتھ سے دبایا، میں ٦١ برد کا ہو چکا ہوں آج بھی موقع ملا تو اس یونورسٹی کے ذمہ دار کے پاس جائوں گا اور ان سے پوچھوں گا یہ پرچہ ہے اس کے جواب دو۔ ١۔اپنی بیٹی پر مضمون لکھو جس میں اس کے قد کاٹھ اس کی جسمانی حالت اور رویے پر روشنی ڈالو۔ قارئین! ہمیں لوٹا جا رہا ہے ہماری اخلاقی قدریں پامال کی جا رہی ہیں۔ہمارا نصاب تعلیم کوئی اور مرتب کر رہا ہے۔ماضی میں ایک تعلیمی ادارے کے بارے میں خبر چلی کے ہم جنسی پرستی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔اور حال ہی میں یہ بھی سنا کہ پنجابی زبان کے بارے میں بھی طلباء سے کہا گیا ہے یہ غیر مہذب لوگوں کی زبان ہے۔ مجھے رومئی کشمیر میاں محمد بخش کھڑی شریف والے یاد آ گئے۔جن کے کلام کا اکثر حصہ حرف حرف قرن پاک کی تفسیر نظر آتا ہے۔
بابا بلھے شاہ بابا فرید حق سلطان باہو وارث شاہ امرتہ پریتم منیر نیازی انور مسعود پڑھتے جائیں آپ کو تہذیب نظر آ جائے گی۔مصیبت یہ ہے کہ جو پڑھانے والے ہیں یہی دیسی گھوڑی ولائتی ٹیٹنے مارتے نظر آتے ہیں۔کاش یہ عصر حاضر کے انور مسعود صاحب کی نظم امبڑی ہی پڑھ لیتے انہیں پتہ چل جاتا ایک روٹھے ہوئے بیٹے کی پنجابی ماں کیا ہوتی ہے۔بات صرف پنجاب کی نہیں سندھی اس سے بڑھ کر تگڑی بولی ہے گوجری اور مضبوط پشتو سرائیکی بروہی بلوچی غرض آپ ان لوکل زبانوں کا کردار فراموش کر ہی نہیں سکتے۔ میں ان کالموں کے ذریعے حکومت وقت سے درخواست کروں گا کہ وہ اس پرچے کے مندرجات پر ایکشن لیں۔پاکستان اس قسم کی مادر پدر آزاد تعلیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ایس انہیں کیا جاتا تو میری ان غیرت مند وکلاء ھضرات سے درخواست ہے کہ میری مدد کریں میں سپریم کورٹ میں رٹ داخل کرنا چاہتا ہوں۔