تحریر: شاہ بانو میر تاریخی شخصیت مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ہمدرد رہنما ہیں جن کی شاعری نے پورے ہندوستان میں دھوم مچا رکھی تھی علامہ اقبال کی انقلابی شاعری نے جیسے بے حس مردہ لوگوں کو بیدار کر کے قرآن پاک کی گمشدہ تعلیمات سے جوڑ کر اپنا حق ادا کر دیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ کے کئے گئے وعدے کے مطابق جو “”انسانیت کیلئے کام کرے گا وہ ہی زندہ رہے گا “” خود کو اپنے کلام سے زندہ و جاوداں کر گئے۔
9 نومبر آپکی پیدائش جسے پاکستانی ہر مصروفیت چھوڑ کر لمحہ بھر کو ہی سہی لیکن آپکی خدمات کو علم کے نور کو روشنی کے سفر کو پاکستان کی ابتداء کی پہلی سوچ کو سلام ضرور پیش کرتا ہے 1930 کا زمانہ یاد کیجئے مسلمان جوتعلیم سے کوسوں دورہونے کی وجہ سے اپنی ذات کی شناخت کھو چکے تھے ایسے میں اجتماعی سوچ کے حامل کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جسے ایسی قابلیت ودیعت قدرت کرے کہ وہ ان لاکھوں زندہ لاشوں کو کلام اللہ سے زندہ کرے انہیں ان کا ماضی ازروئے قرآن اردو شاعری میں بیان کر کے اصل سے جوڑے کہ غیرت کے بھولے ہوئے اسباق اُن پر طاری یاس کے بادل ہٹائے الفاظ کی رم جھم با مقصد بارش ان کے ضمیر اور قوت ارادی کو جھنجھوڑ کر جگائے اور یہ کام کر دکھایا علامہ اقبال نے اپنی زندگی کا مقصد دو وقت کی روٹی کا حصول اور جسمانی ذہنی غلامی نہیں بلکہ غیور رزق قوت بازو اور طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرنا اس کے آباء کا خاصہ تھا جو اسے اب اپنا کر غلامی سے آزاد ہونا ہے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ باتیں سامنے موجود لاکھوں نیم مردہ لاشوں سے متوقع تھیں جن کو اتنا دبا دیا گیا تھا کہ جو جی حضور کے علاوہ کچھ کہناجانتے ہی نہیں تھے ان کو عام شاعری عام باتیں نہیں جگا سکتیں تھیں۔
تبدیلی بہت بڑی لانی تھی اور وسیلہ انسانی وسائل نہین بن سکتے تھے تو اللہ پاک نےاپنی مدد اس پر کی اور اس عظیم انسان کو خدمت انسانی کیلئے چن کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریخ میں محفوظ کر دیا اللہ اپک قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اپنے کاموں کیلئے وہ خود لوگوں کا انتخاب کرتا ہے ایسے ہی انکا ہوا اور ان کی شاعری کا اس کی سوچ کا رخ امہ الکتاب کی جانب موڑا یوں باوضو ہو کر احترام کا اعلیٍ معیار قائم کرتے ہوئے وہ بڑی محبت سے زیر لب دعا پڑھ کر قرآن پاک کو کھولتے ہیں۔
Quran
اللہ رب العزت ان کے سامنے ایک پیغام لے آتے ہیں صفحات پر نگاہ دوڑتی ہے تو جیسے آنکھوں کی ماند ہوئی چمک بڑھ جاتی اس ام الکتاب کا معجزہ جو “” چاہتے ہو وہی کھولنے پر ملتا ہے”” اور آج جو ملا وہ تھا ایک آفاقی پیغام جس کی اس وقت کے لُٹے پُٹے تباہ حال سادہ لوح لوگوں کو ضرورت تھی سورۃالرعد آیت 10 “”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی “” یہ آیت اشعار کی سورت اللہ پاک ان سے یوں بیان کرواتے ہیں کہ
خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ قرآن پاک کا آسان ترجمہ ہو گیا اور عام بندے تک جس نے قرآن کو عربی ذبان کا کلام سمجھ کر اس کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا سوچا بھی نہیں تھا ٰ یہ شعربڑی سہولت سے اس عظیم انسان نے عام بندے تک پہنچا کر گویا قرآن کو پہنچا دیا عظیم سعادت الگ مل گئی اپنے والدین کیلئے قرآن پاک کو شاعری میں سمو کر صدقہ جاریہ بھی بنا دیا اس آیت سے پہلے ایک اور آیت کے آخری الفاظ کا ترجمہ اس نے اشعار میں نہیں کیا کیونکہ خود نمائی قرآن منع کرتا ہے اسی سورت میں لکھا ہوا ہے جس کا مطلب اس عظیم المرتبت انسان پر بھی پورا اترتا ہے۔
“””ہرقوم کیلئے ایک رہنما ہے الرعد آیت 7″”” رہنما ایسے ہوتے ہیں جن کی قلب ونگاہ میں ذات کی نمائش مصنوعی مصروفیت سے خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہیں بلکہ اپنے خوشحال با رونق اعلیٍ نظام سے نگاہوں کو ہٹا کر اپنے اُن لوگوں پر پوری سوچ کو مرکوز کر کے ان کے دکھ درد کو محسوس کر کے اپنی ہر میسر شدہ آسائش سے خود کو محروم کر کے ان کی زندگی میں بنیادی ضروریات کی فراہمی کو نصب العین بنانے والے عظیم ہیں رہنما ہیں یہی ہیں عظیم لوگ کہ”” زندہ وہی رہے گا جو لوگوں کیلئے فائدہ مند ہوگا “” علامہ اقبال نے قرآن پاک کے آفاقی پیغامات کو شاعری میں سمو کرجس خوبی سے بیان کیا ہے وہ جگا گیا سوئی ہوئی قوم کو ہجوم کو لنتشر لوگوں کو بھٍیڑ سے قوم بنا گیا۔
Allah
اللہ پر توکل کو بنیاد بنا کر آخر کار وہ تبدیلی وہ انقلاب بپا کر دیا جو برصغیر پاک و ہند میں آج بھی مثالی ہے یوں قرآن پاک کی اس آیت کا ترجمہ بھی تمام حقانیت کے ساتھ ثابت ہوا کہ بول بچن سے نہیں دکھاوے سے نہیں آرائشی نمائشی انداز سے نہیں بلکہ تقویٰ منت اخلاص سچائی سے ہی ناممکن ممکن بن سکتا ہے اور پھر اللہ پاک امتوں کو قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے اگر رہنما پر سچائی کے ساتھ اللہ پاک کی خوشنودی بھی شامل ہو تو یہ معجزہ 1947 کی طرح آج بھی ہو سکتا ہے۔
علامہ اقبال کا اخلاص اللہ پاک کو اس قدر پسند آیا کہ قرآن پاک کو بزریعہ شاعری ڈھالنے کی ذمہ داری دے دی اور آج ایک مسلمان خود نہیں جانتا کہو بڑی محبت سے علامہ کے اشعار جو پڑھتا ہے سنتا ہے در حقیقت وہ اللہ پاک کے کلام کو آسان الفاظ میں سن رہا ہے یہ کلام ویسے ہی ذہن کے بند دریچے کھولتا ہے اور انسان کو قریب تر کرتا ہے اللہ سے اسکی محبت کا احساس اور بڑہا دیتا ہے یہی وہ خدمت ہے جو مردہ ذہنوں کو جگا کر ان کی قسمت کو تبدیل کر گیا غلاموں نے آزاد ہو کر اپنا ملک بنا لیا یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟
آج تبدیلی کا نعرہ زورو شور سے لگایا جاتا ہے لیکن دنیا کے کھوکھلے لوازمات کے ساتھ 1937 میں دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی آپ کا کام انسانیت کیلئے مشعل راہ بنا اور تبدیلی 1947 میں آئی کہ نقشے بدلنے پڑے آپ پاکستان کے محسن ہیں اور ایسے ہی لوگ ہیں جو زندگی کو ان کیلئے گزارتے ہیں جو اپنی زات کا شعور نہیں رکھتے تو ایسے عظیم لوگوں کی قربانی کو قدرت محفوظ کر کے انہیں تاریخی بنا دیتی ہے علامہ اقبال آپ نے قرآن کو تھاما اللہ پاک نے آپ کے کام پر قبولیت کی مہر یوں لگا دی کہ رہتی دنیا تک شاعری کی صورت جاوداں ہو گئے آپ کے درجے بلند کر دیئے گئے۔(آمین)
آسمان تیری لحد پر شبنم افشنی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے