تحریر: مدثر احمد کاکڑ زیارت شاعر مشرق اورعظیم مفکر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا آج 139واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے ۔اس دن کے موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل کی جاتی ہے اور ملک کے کونے کونے میں شاعر مشرق کی یاد میں تقریبات کاانعقاد کیا جاتا ہے ۔او راس چھٹی اور تقریبات کا مقصد آنے والے نسل کو اپنے افلاس کی قربانیوں اور ان کی آزادی کیلئے کی جانے والی کوششوں کو یاد کرنا ہوتا ہے ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ٩نومبر 1877کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر آنکھ کھولی ۔والدین نے ان کا نام محمد اقبال رکھا ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقہ سیالکوٹ سے حاصل کی ۔مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ۔زمانہ طالبعلمی میں انہیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور ان کے اوصاف اور خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی فرمائی۔
شہر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہں سے پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے استاد محترم مولوی میرحسن کا بڑا دخل تھا ۔ ایف اے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی حصول کے لئے آپ لاہور چلے گئے اور جی سی لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کئے ۔یہاں پر آپ کو پروفیسر آرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی بھر پور طریقے سے کی ۔1950میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔بعد میں آپ جرمنی چلے گئے اور میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ شروع میں ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دینے لگے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔
وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھر پوز انداز میں حصہ لیا ۔1922میں حکومت کی جانب سے آپ کو سر کا خطاب ملا ۔1926میں آپ پنجاب لیجسلیٹواسمبلی کے ممبر چنے گئے ۔آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے ۔مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۔اور آپ نے 1930میں خطبہ الہ آباد دیا اور الہ آباد کا صدارتی خطبہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے اور اسی خطبے میں آپ نے تصور پاکستان پیش کیا ۔1931 میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی ۔علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ان تھک کوششوں سے آخر کار ملک آزاد ہو گیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا ۔لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21اپریل 1938کو علامہ محمد اقبال کا انتقال ہوا ۔ لیکن ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔
Allama Muhammad Iqbal
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے ۔آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنے رہے گی ۔یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال کو دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے ۔علامہ محمد اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ان کے کئی کتابوں کے انگریزی ، جرمنی، فرانسیسی، چینی،جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ۔جس سے بیرون ملک لوگ بھی آپ کے معترف ہیں۔بلامبالغہ علامہ محمد اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو حضور پاک٫ۖ سے جو عشق ہے وہ اس کا اظہا ر اس کی اردو اور فارسی کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے ۔اقبال کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول ۖکو ایک نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا۔
اقبال کی طبیعت میں سوز و گداز اور حب رسول اس قدر تھا کہ جب کھبی ذکر رسول ہو تا تو آپ بے تاب ہو جاتے ۔روزگار فقیر میں سید وحید الدین لکھتے ہیں ۔اقبال کی شاعری کا خلاصہ جوہر اور لب لباب عشق رسول ۖ اور اطاعت رسول ۖ ہے ۔ان کا دل عشق رسول نے گداز کر رکھا تھا ۔زندگی کے آخری زمانے میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بند جاتی ۔آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی کئی منٹ سکوت اختیار کر لیتے تھے ۔تاکہ اپنے جذبات پر قابو پاسکیں ۔عشق و محبت کا یہ مرتبہ ایمان کا خلاصہ ہے ۔اتباع رسول کے بغیر محبت رسول ۖ ناممکن ہے ۔آپۖ کی ذات گرامی رحمتہ اللعالمین تھی ۔اس لئے مومن کو بھی رحمت و شفقت کا آ ئینہ ہونا چاہیے۔
اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمان کی سر شت ایک موتی کی طرح ہے جس کو آب و تاب بحر رسول سے حاصل ہو تی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال اسوہ حسنہ کی تقلید کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مومن تو باغ مصطفوی ۖ کی ایک کلی ہے ۔بہار مصطفویۖ کی ہواؤں سے کھل کر پھول بن جاو ٔ۔ اقبال کے نزدیک خالق کائنات نے جب اس دنیا میں اپنی کاریگری کا آغاز کیا اور حضرت انسان کی شکل میں اپنے چھپے ہوئے خزانے کو عیاں کیا پھر جب ارتقاء کے منازل طے ہوتے گئے اور قوائے انسانی اپنے پورے کمال پر آگئے ۔تو رب العالمین نے محمد ۖ کو مبعوث فرمایا ۔جو سب کے لئے رحمت ،ہادی ،راہنما اور مہربان تھے ۔کلام اقبال میں عشق رسول کے اظہار میں جو شیفتگی و وار فتگی کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔اقبال ایک جگہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام تر عقل اور فلسفہ دانی کو نبی کریم ۖکے قدموںمیں ڈھیر کر دیا ہے ۔اقبال کے ذہین میں عشق و مستی کا اول اور آخری محور ایک ہی ہونا چائے اور وہ محور ہے نبی کریم ۖ کی ذات جو ذات تجلیات ہے۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
جس دور میں اقبال نے شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظمیں تخلیق کئیں وہ مسلمانان عالم کے لئے ایک عالمگیر انحطاط و انتشار کا زمانہ تھا ۔اقبال مسلمانان عالم کی اس عمومی صورتحال پر ہمہ وقت بے تاب و بے قرار رہتے تھے ۔جواب شکوہ لکھنے سے کچھ عرصہ قبل اقبال نے طرابلس کے شہیدوں کے حوالے سے ایک نظم حضور رسالت مآب لکھی ۔اقبال کا مطالعہ اسلام اور قرآن بہت ہی اچھا تھا۔
Allama Muhammad Iqbal
انہوں نے اپنی شاعری میں آیات قرآنی کو جگہ دی ہے۔کیونکہ اقبال کو پتہ تھا کہ اللہ کی کتابوں میں یہ آخری اور واحد کتاب ہے جس میں تبدیلی اور غلط بیانی کسی کے بس کی بات نہیں اور اس کی خالص شکل لوح محفوظ میں موجود ہے اور اسی قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) اے نبی کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابعداری کرو۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی اسی شاعری کی بدولت مسلمانوں کو بیدار کیا اور مسلمانوں میںجذبہ اسلام اورحب الوطنی پیدا کی ۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال انتہائی شفیق، صاف گو، مرد مومن اور جمہوریت پسند تھے۔