تحریر: صہیب سلمان علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء میں سیالکوٹ کے ایک دینی گھر انے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد ٹو پیوں کا کاروبار کرتے تھے جس کی وجہ سے شیخ ٹوپیاں والا کے نام سے جانے جاتے تھے۔خاندانی رواج کے مطابق اقبال نے پہلے مدرسے کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد دنیاوی۔ اقبال شروع میں ہندؤ اور انگریز اتحاد کے حامی تھے لیکن اقبال بہت جلد جان گئے کہ ہندو انگریز گھٹ جوڑ مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا ۔یہ صورت حال مد نظر رکھتے ہوئے اقبال نے مسلمانوں کے ضمیر کو جگا نے کا بیڑا ُٹھایا جس کا اظہار اقبال کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔
1930 ء میں علامہ اقبال نے خطہ الہ آباد میں مسلمانوں کیلیئے الگ وطن کا مطالبہ کیا تاکہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرسکیں اور وہ تصورات جو اسلام نے پیش کئے ہیں اُنہیں رائج کیا جاسکے ۔ تاکہ مسلمانوں کی الگ اپنی پہچان ہو ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اقبال نے شاعری کاراستہ منتخب کیا۔قائد اعظم جب ہندواور انگریز گھٹ جوڑ سے تنگ آکر مستقل سکونت کیلئے لندن آئے تو یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے خط لکھ کر قائد اعظم کو واپس آنے پر آمادہ کیا ۔اقبال نے اپنی ولولہ انگیز شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگایا اور ان میں ایک آزادی کی نئی لہرپھونکی اور اسی لہر نے ہی مسلمانوں کو اپنا الگ وطن حاصل کرنے میں مدد دی۔
آئیے اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ اقبال علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کیسے بنے اس کے پیچھے پانچ عناصر ہیں۔ پہلا عنصر اقبال کی پرورش ایک دینی گھرانے میں ہوئی جس کی وجہ سے اقبال کے دل میں دین کی قدروقیمت اور اہمیت پیدا ہوئی اور رسولۖ سے والہانہ محبت قائم ہوئی ۔یہ اثر اقبال کی زندگی کے آخری عمر کے حصہ تک رہا۔ دوسرا عنصر مولانا روم علامہ اقبال کے روحانی مرشد تھے اقبال جب کبھی مشکل حالات میں ہوتے تو مولانا رومی کا کلام سے رہنمائی لیتے تھے۔اقبال کو مولانا روم سے والہانہ محبت تھی اقبال مولانا رومی کی کتابوں کو بڑ ے غور کیساتھ پڑھتے تھے کیونکہ ان کی کتابوں میں حکمت چھپی ہوتی تھی ۔ رومی ہو،رازی ہو،یا غزالی بغیر عرفان نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
Poetry of Allama Muhammad Iqbal
تیسرا عنصر خودی ہے جو اقبال کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اقبال شروع سے ہی خودار تھے کیونکہ سکول سے لے کر کالج تک تمام اخراجات خود ہی پورے کئے ۔مسلمانوں کو بھی اقبال نے خودی کادرس دیا تاکہ مسلمان اپنے آپ کو پہچان سکے اور اپنے مستقبل کیلئے کچھ کرسیکں۔ اقبال کے نزدیک خود آگاہی اور شناسی انسان کے کردار کو نکھارتی ہیںْ۔ اقبال کی خودداری کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اقبال اپنے بیٹے جاویدکے گھر رہتے تھے لیکن اس کو کرایہ ادا کیا کرتے تھے ۔(اس خوشہ گندم کو جلادوجس رزق کی پرواز میں آتی ہو کوتاہی)۔ چوتھا عنصر جس نے اقبال کی شاعری کو چارچاند لگائے اور یہ چیز موجودہ ددور کے ہر انسان کے گھر میں الماری میں بند پڑی ہوئی ہے اور وہ ہے قرآن مجید ۔اقبال قرآن مجید کو باقائدگی سے صبج پڑھتے تھے آپ کی شاعری قرآن مجید کے گر دگھومتی ہے ۔اقبال جب قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہوتے تو آپ کے والد پو چھتے اقبال کیا پڑہ رہے ہو آپ جواب دیتے کہ اباجاج قرآن پاک تو آپ کے والد کہتے کہ قرآن پاک کو اس طرح پڑ ھا کرو جیسے نزول ہورہاہو۔اقبال قرآن پاک کو ترجمہ کیساتھ پڑھتے تھے۔
پانچواں عنصر جس نے اقبال کی شاعر ی کو دوام بخشا اقبال کو علامہ ڈا کٹر محمد اقبال بنایا وہ ان کا آہ سحرگاہی تھا ۔آہ سحرگاہی نے اقبال کی سوچ بد لی اور ان کی زندگی میں عشق رسولۖکے جذبہ کو ابھارا۔(رومی ہو،رازی ہو یا غزالی کوئی بھی بغیر عرفان نفس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا)۔اقبال جہاں کہیں بھی جاتے وہ آہ سحرگاہی کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔اقبال ہمیشہ یہ دُعا کیا کرتے تھے کہ یارب مجھ سے سب کچھ چھین لے لیکن آہ سحر گاہی نہ چھیننا۔اقبال صبح سویرے اُٹھ کر شعر لکھتے اور بعد میں اپنے دوستوں کو پڑھ کر سناتے تھے اور جو چیز صبح سویرے کرلی جائے وہ سارا دن نہیں ہوتی۔اقبال آہ سحرگاہی کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔
اقبال بیک وقت فلاسفر،شاعر اور سیاستدان تھے صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔(ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے چمن میں دیداں ور پیدا ہوتا ہے )۔ہم ہر سال یوم اقبال مناتے ہیں اور اس عظیم انسان کو خراجہ تحسین پیش کرتے ہیں لیکن اگر اقبال کی تعلیمات پر عمل کریں تو ہمارا ملک آج کسی اور جگہ کھڑا ہوتا ۔ہمارے لیڈرز اقبال کی قبر پر جاکر پھول تو رکھ آتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ۔ میں آخر میں ایک بار پھر نوجوان وکیل راہنما سید فرہاد علی شاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی کاوش کی وجہ سے پاکستان حکومت نے پہلے یوم اقبال پر چھٹی بحال کی اور بعد میں اِس نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دے کر چھٹی مسترد کردی ۔یادرہے کہ اِن وکیل راہنما کی درخواست اب بھی لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اور جس پر عدالتِ عالیہ کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔