تحریر : مروا ملک سیاسی گرما گرمی ہر دور کا ہی خاصہ رہا ہے۔ الزامات لگتے رہتے ہیں اور تردیدیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ کئی دفعہ سپریم کورٹ میں کئی کیس جمع کروائے گئے مگر ان کا کوئی خاطر خواہ حل نہیں مل سکا اور یہ کیس اپنی موت خود مر گئے۔اس دفعہ صورتحال کافی گھمبیر ہو گئی ہے۔سیاسی تصادم کو عروج حاصل ہو گیا ہے۔پاناما لیکس کے معاملے میں تقریباً تمام پارٹیاں ہی حکومت سے خائف نظر آئیں۔سوائے مولانا فضل الرحمٰن گروپ کے۔جس سیاسی کشیدگی کا اندیشہ تھا کہ وہ ٢ نومبر کو شروع ہو گی۔ اس کا آغاز ٢٧ اکتوبر کو ہی ہو گیاتھا۔ حکومت نے ریاستی طاقت کے استعمال کی تمام حدیں توڑ دیں۔ اس طرح کی گرما گرمی اور مار دھاڑ ہمیں ١٩٩٠ کی دہائی میں نظر آتی ہے۔کچھ پارٹیاں جو حکومت کی طرف داری کر رہی ہیں اور کچھ مخالفت میں ہیں۔
ہنگامہ آرائی کا آغاز یوتھ ورکر کانووکیشن سے ہوا۔پولیس نے کارکنان کو بیجا تشددد کا نشانہ بنایا اور خواتین کا لحاظ بھی نہ رکھا گیا۔خواتین کارکنان کو زودوکوب کیا گیا اوور سڑکوں پر گھسیٹنے کا عمل یکم نومبر تک جاری رہا۔مقامِ افسوس کہ ہمارے سیاست دان بد اخلاقی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔بد زبانی اور بد اخلاقی ابھی تک جاری و ساری ہے۔پہلے تو ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے یا پھر مضحکہ خیز جملوں کا تبادلہ ہوتا تھا مگر اب بات گالم گلوچ تک پہنچ چکی ہے۔یہ امر قابلِ مذمت ہے۔ شروع میں توسیاسی مخالفین ایک دوسرے کیلئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے نظر آتے تھے مگر اس دفعہ عوامی تحریک اور پی ٹی آئی رہنمائوں میں سیاسی حامی ہونے پر بھی ایسی گنجلک دیکھنے میں آئی۔ایک مستحکم جمہوری ملک کے سیاستدان اپنے ہی ملک کا امیج دنیا میں خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ہر ایک انسان دوسرے سے دست و گریباں ہے۔
عالمی برادری پہلے ہی ڈان نیوز کی غلط خبر فیڈ کرنے کے بعد پاکستان پر مکمل فوکس کیے ہوئے ہیں۔کسی بھی ملک کے اندرونی حالات اسے دنیا میں مستحکم یا غیر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ابھی تک ہمیں تو سرل المیڈا کی خبر کے بارے میں تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران کا نام بھی نہیں معلوم ہوا۔حکومت کی غیر سنجیدگی سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے۔بہرحال حکومتِ وقت کا خبر غلط فیڈ کروا نا اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ملکی سلامتی پرذاتی اختلافات اور دشمنی کو مقدم رکھنا بہت غلط امر ہے۔عسکری قیادت ملک کی سالمیت کی آئینہ دار ہے اور اسی وجہ سے کسی ملک کو ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی ہے۔
حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر بات کی جائے تو معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھتا ہوا نظر آتا ہے۔کہیں یہ نہ ہو کہ عمران خان صاحب کو ایک دفعہ پھر سڑکوں پر نکلنا پڑ جائے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو کیونکہ اس کے بعد حالات کو قابو کرنا کافی مشکل ہو جائے گا۔ذاتی مفاد کی سیاست کا دھلا دھلایا چہرہ ہر دور میں نظر آیا ہے۔حالانکہ ملکی مفاد میں کیے جانے والے فیصلوں اور اقدام پر عوام کی طرف سے ستائش حاصل کرتے رہے ہیں۔پاناما لیکس کے حوالے سے بات کو تھوڑا آگے بڑھایا جائے تو اس کیلئے پانچ رکنی بینچ کی تشکیل کے بعدمیاں صاحب کو اپنے اور اہل و عیال کے اثاثہ جات کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کو کہا گیا ہے۔گو کہ وزیرِاعظم صاحب نے صرف اپنے حوالے سے تفصیلات جمع کروا دی ہیں اور انھیں باقی تفصیلات کیلئے سوموار تک کا وقت دے دیا گیا ہے۔ نیب نے پاناما کے حوالے سے تحقیقات پر معذرت کر لی تھی ۔کرپشن کے سارے معاملات نیب اور ایف بی آر وغیرہ دیکھتے ہیں۔چیف جسٹس کی جانب سے ان اداروں کے سربراہان کو تحقیقات کر کے تفصیلات جمع کروانے کا حکم دیا ہے اور اس معاملے میں قانونی ماہرین کی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
Supreme Court
عوام سے لیکر تمام سیاسی پارٹیوں کی نگاہیں اب صرف سپریم کورٹ کے فیصلے اور پیش رفت کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ملکی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی حکمران کو احتساب کیلئے عدالت میں لے جایا گیا ہے جس پر کرپشن کے علاوہ ٹیکس چوری ، منی لانڈرنگ ، آف شور کمپنیز وغیرہ جیسے الزامات لگے ہیں۔وزیرِاعظم کو عدالت میں نہ صرف ملکی بلکہ گلوبل ایسٹس کی بارے میں بھی بتانا پڑے گا۔لوگ مطمئن ہیں کہ احتساب ہو گا اور پہلی دفعہ کسی طاقتور کو اس کے کیے کی سزا بھی دی جائے گی۔دوسری طرف حکومت بھی زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہے نہ ہی پریشان نظر آرہی ہے۔ کیا مک مکا کی سیاست پھر سے غالب آجائے گی یا واقعی مجرم کو قرارا وقعی سزا ملے گی۔
پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے تمام تر کام شفافیت سے کرنے اور غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔مگر عمران خان اور نواز شریف کے وکلاء آپس میں دوست بھی ہیں اور بزنس پارٹنر بھی۔حامد خان اور سلمان اسلم بٹ کی لاء فرم CLN ہے جس کے دونوں شیئر ہولڈرز ہیں۔ان کے ایک تیسرے سابقہ فریق بھی تھے جو اس وقت پاناما لیکس کے لارجر بینچ میں بطور جج شامل ہیں۔صورتحال آپ کے سامنے ہے۔سپریم کورٹ کی برہمی اور مختلف ریمارکس بھی آرہے ہیں اور کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگنے کا پیغام دیا ہے۔دونوں فریقین کے وکلاء بھی پر عزم ہیں کہ وہ ہر حال میں سرخرو ہوں گے ۔اسی ضمن میں آرٹیکل 189اور190کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو بھی تو تمام ادارے کسٹوڈین آف دی ہائوس کے حکم کی تعمیل کے مجاز ہوتے ہیں۔معاملہ جس قدر سادہ اور آسان نظر آتا ہے اسی قدر پیچیدہ ہے۔اگر ایسا نہ بھی ہوا تو پیچیدگیاں بنا دی جائیں گی۔
چیئرمین پی پی پی نے موجودہ حالات کے پیش نظر اجلاس بلایا۔اس میں حکومت کو چار مطالبات ماننے کا کہا گیا ورنہ ان کیلئے مشکلات پیدا کی جائیں گی اور اگلے سال عام انتخابات کی مہم چلائی جائے گی۔یہ لائحہ عمل یونہی نہیں مختص کیا گیا بلکہ یہ بھی ایک دور رس حکمت عملی ہے شریف خاندان کو بچانے کی۔ایک دوسرے کے عیوب پر پردہ ڈال دینا سیاست کی پرانی ریت ہے۔پاناما والی بات اگر منظر عام پر نہ آتی تو سب ویسے ہی شریف ہوتے جیسے پہلے نظر آتے رہے۔
سوئس حکومت کو خط لکھوانے کی ضد پر اڑنے والے یہی ن لیگی رہنما تھے جو اپنی حکومت آنے پر خاموش ہو گئے۔اب پیپلز پارٹی اس معاملے کو لٹکانے میں مدد ضرور کرے گی اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو اس کو گھمبیر کی صورتحال ضرور بن جائے گی۔اس کی وجہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔چور مچائے شور کی ضرب المثل پر کام کرتی پی پی پی کیاکرنے جا رہی ہے ۔اب تک کے حالات کو دیکھ کر نیک شگونی کی کوئی علامت نظر نہیں آتی ہے بہرحال دعا ہے کہ جن جن باتوں کا اعتراف کیا گیا ہے اس پر سب صدق ِ دل سے عمل پیرا ہوں۔