اگر انسان میں کسی بیرونی یا اندرونی چیز سے حساسیت پیدا ہو جائے تو عرف عام میں ” الرجی ” کہا جاتا ہے۔ ہم الرجی کو سمجھنے کے لئے زیادہ نہیںتین اقسام میں بیان کرتے ہیں اول قسم کی الرجی کو سوشل یا سماجی الرجی جبکہ دوسری قسم کی الرجی کا تعلق طبی سے ہے۔جبکہ تیسری قسم کی الرجی کو ” اسلامک فوبیا ” کہتے ہیں۔ یہ سماجی الرجی ہی ہے جو حسد بغض اور احساس کمتری کے علاوہ عدم برداشت پیدا کرتی ہے۔ ہم کہ سکتے ہیں سماجی الرجی کی وجہ سے قتل و غارت، چوری ڈکیتی اور جادو ٹونہ جیسے عوامل جنم لیتے ہیں۔ سماجی الرجی سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے زندگی ایسے گزاری جائے جیسے ” اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ۖ نے حکم دیا ہے رہا مسلہ دوسری قسم کی الرجی کاتو یہ تاہم الرجی محض بہار کی آمد کے وقت ہی نہیں ہوتی بلکہ موسمی الرجی خزاں کا موسم شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے سے بھی حملہ آور ہو جاتی ہےـ الرجی پیدا کرنے والے ‘الرجنز’ یا ایجنٹس گھاس اور درختوں سے ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیںـ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ماہرین کے مطابق یہ ایجنٹس انسانوں کے ناک، کان، آنکھوں اور منہ میں داخل ہو کر جسم میں خاص طرح کے اثرات کا سبب بنتے ہیں۔ الرجنز کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور یہ مختلف اعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیںـعموماً الرجی اور Hey Fever کا تعلق موسم بہار اور خاص قسم کے درختوں کی وجہ سے انسانی جسم میں پائی جانے والی حساسیت سے ہوتا ہےـ Hey Fever جسے تپ کاہی کہتے ہیں اور جو پودوں کے زردانے سے ہونے والی حساسیت سے ہوتا ہے، کی علامت ناک کی سوزش اور پھر تیز بخار ہوتا ہےـ
٭الرجی کی علامات ١: جسم پر خارش ٢:۔ آنکھوں کی سوزش یاجلن خارش اور پانی آنا ٣:۔ ناک کی بندش یا ناک سے پانی بہنا ، چھینکیں ٤:۔ گلے کی خراش و سوزش ٥:۔ سانس کی نالیوں کی سوزش اور کھانسی و دمہ ٦:۔بے چینی یا بخار کا ہونا وغیرہ وغیرہ
موسم خزاں سے پہلے ہونے والی الرجی یورپ اور امریکہ میں بہت عام ہےـ امیونولوجی اور دمے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ الرجی کی اس قسم کی علامات میں چھینکیں آنا، ناک سے پانی بہنا اور آنکھوں اور ناک میں خارش ہونا شامل ہیںـ خزاں میں پھپھوندی کے نباتاتی تولیدی خلیے یا ذرے بھی فضا میں تیزی سے پھیلتے ہیںـ الرجی اور دمے کے ماہرین کے مطابق خزاں کے موسم میں درختوں اور پودوں سے جھڑنے والے پتے پھپھوندی کے نباتاتی ذرات بہت وسیع علاقے میں بکھیر دیتے ہیں اور یہ ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں جو الرجی کا شکار ہوتے ہیںـ اس سے سانس کی گونا گوں بیماریاں پیدا ہو جاتی ہےـ
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ خزاں کے موسم کو وائرس کا موسم بھی کہا جاتا ہےـ اس میں کھانسی اور نزلے زکام کا غلبہ رہتا ہے اور یہ ساری صورتحال اس لئے پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ یہ تمام عارضے ایک ہی وقت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ علامات الرجی کی ہیں یا وائرل انفیکشن یعنی فلو کی۔
خزاں میں ہر طرف نظر آنے والے مخصوص پتے اور خاص قسم کا چھلکوں والا بادام
ماہرین کا کہنا ہے کہ خزاں کے موسم میں الرجی اور وائرس سے بچنے کے لئے گھر میں بند رہنا بھی صحت کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ گھر کے اندر نمی کی کمی پائی جاتی ہے جس سے پھیپھڑوں اور ناک میں پائی جانے والی الرجی مزید خراب شکل اختیار کر سکتی ہےـ ہوا میں نمی کی کمی، میوکس ممبرین یا وہ جھلی، جس سے منہ، ناک اور آنتوں کے اندر لعاب خارج ہوتا ہے، کو خشک کر دیتی ہےـ اس طرح ان اعضاء میں سوزش پیدا ہو جاتی ہےـ دوسری جانب ٹھنڈی یخ اور خشک ہوا ناک کی اندرونی جھلی کے سوجنے کا سبب بنتی ہے، جس سے ناک میں گھٹن کا احساس بہت شدید ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر میں ناک بہنا شروع ہو جاتی ہےـ
دمے کا مرض زیادہ بڑھ جائے تو سانس کی تکلیف دور کرنے کے لئے پمپ استعمال کرنا پڑتا ہے خزاں کے موسم میں الرجی اور فلو سے بچنے کی ترکیب:
کمرے میں 35 سے 50 فیصد تک نمی ہونی چاہئےـ اس لئے کہ عام گھروں اور دفتروں میں نمی کی عموعی شرح محض 16 فیصد ہوتی ہےـ ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس موسم میں کمرے میں نمی کو ناپنے والا آلہ، جسے ہائگرو میٹر بھی کہتے ہیں، استعمال کرنا چاہئےـ نمی کی مطلوبہ شرح نہ ہو تو کمرے میں ‘ہیو میڈیفائر’ لگانا چاہئےـ جن کمروں میں ہیٹر لگے ہوں، وہاں کسی گہرے پیالے میں پانی بھر کر رکھنے سے نمی پیدا ہوتی ہےـ اس کے علاوہ گھروں کو گرد سے پاک رکھنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئےـ
٭ طبی الرجی معلوم کرنے کیلئے دو طریقے بہت اہم ہیں
ایک خون کا ٹیسٹ کیا جاتاہے اور اس میں الرجی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مریض کو کس چیز سے الرجی ہے اس میں (IgE)کودیکھا جاتا ہے جو ایک بہت مشکل مرحلہ ہے اس کے اندرمنفی اور پازیٹویو بہت زیادہ آتے ہیں جس میں ٹیسٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مریض کو الرجی ہے لیکن مریض میں الرجی نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیسٹ اچھے طریقہ سے نہیں ہوا اس ٹیسٹ میں منفی یا پازیٹویو چالیس فیصد ہے لہذا اچھا ٹیسٹ معلوم کرنے کا بہترین طریقہ جلدر پرکسی سوئی سے پنچ کر کے وہ چیز جس سے مریض کو الرجی ہے جلد پر لگا دیتے ہیں اور اس کا ردعمل دیکھتے ہیں جو تقریباً دس سے پندرہ منٹس میں نظر آنے لگتے ہیں ٭ ااسلامک فوبیا یہ الرجی کی وہ قسم ہے جو عموماً ایک ہی وقت میں انفرادی اور اجتماعی سے ایک قسم کی یا پھر دونوں اقسام میں ہو سکتیں ہیں۔
اسلامک فوبیا میں مبتلا عموماً غیر مسلم مبتلا ہوتے ہیں اور اسلامک الرجی کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے جس کی زندہ مثالیں فلسطین میں اسرائیل کا اسلامک فوبیا ، کشمیر میں بھارت کا مسلم کش ، اور شام برما میں یہودونصریٰ کا اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ اسلامک فوبیا کی وجہ سے امت محمدیہ فرقہ وادیت میں بٹ کر ٹکرے ٹکرے ہو گئی ہے ، حالانکہ یہ وہ امت ہے جس کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔
انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہر قسم کی الرجی سے بچنا ضرور ہے