تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پوری پاکستانی قوم کیلئے یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ آن پہنچا ہے کہ ملک کے چاروں طرف اغیار، مکار ہندو، ٹرمپ اور اس کے بغل بچے اور حواری دیگر سبھی لاد ین، سیکولر و کمیونسٹ ممالک و یہود و نصاریٰ سمیت سامراجی قوتیں اور ان کے گماشتوں نے مگر مچھوں کے زہریلے جبڑے کھولے ہمیں ہڑپ کر ڈالنے کی ناپاک کوششیں تیز تر کرڈالی ہیں۔ پیرس میں منعقدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں 37 ممالک کی موجودگی کے اندر ہمارا ایک ہی وفادار دوست ترکی نکلا ، حتیٰ کہ ہمارا بازوئے شمشیر بنا چین اور اسلامی بھائی چارے کے دعوے دار سعودی عرب نے بھی آخری وقت میں ہمارا ساتھ نہ دیا۔ ایران اور شمالی کوریا کو انہوں نے بلیک لسٹ میں شامل کیا اور عراق شام اور یمن سمیت 9 ممالک کو گرے لسٹ میں (یعنی ایسے ممالک جو کہ دہشت گرد تنظیموں کی امداد کو نہیں روکتے) شامل کر ڈالا۔امریکی یہودی اور ہندو لابی کے پریشر پر ہمیں گرے لسٹ میں ہی شامل کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی مگر اس کا باضابطہ اعلان جون میں کیا جائے گا۔ ہم پہلے بھی 2012ء تا2015ء تین سال تک گرے لسٹ میں شامل رہے ہیں مگر اس بار امریکہ مودی موذی کی یاری میں ہمیں گرے لسٹ میں شامل کرڈالنا اس کی انا ء کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔
دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے امدادی بنے ہمارے 60 ہزار افراد کی قربانیوں کی طرف بھی قطعاً کوئی توجہ نہ دی گئی ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کی لابئنگ بہت کمزور رہی اور ہوتی بھی کیسے نہ ! کہ کئی سال تک تو ہمارا ملک بغیر وزیر خارجہ کے ہی چلتا رہا ہے۔9/11 کے واقعہ پر کمانڈو جنرل مشرف نے فوراً بغیر کسی ساتھی جنرل/ یا اسمبلیوں سے مشورہ کئے بغیر ہی امریکیوں کے اتحادی بن جانا گوارا کرلیا ۔ اس وقت تک کم از کم مغربی بارڈر پر موجود افغانی اور پورا فاٹا کے افراد ہماری دفاعی لائن تھے۔ مگر ہم نے اڈے /ائیر پورٹس دے کر اور ہمسایہ ملک افغانستان پر زہریلی گیسیں برسانے میں امداد دے کر افغانستان کے عوام کو خوامخواہ اپنا دشمن بنا لیا ، ان کے ابھی 44لاکھ افغانی ہماری دھرتی پر بطور مہمان موجود ہیں۔ کئی سالوں سے ہم ان کی خدمت کررہے ہیں مگر افغانیوں کے دلوں میں اب ہماری ساری ہمدردیاں بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ نکلی ہیں۔
اب تو ”تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو” کے مصداق ہمیں ملک کے اندرونی خلفشار ،بڑھتی ہوئی فرقہ واریت ، مسلکوں ، علاقائی ولسائی جھگڑوں پر مکمل قابو پانا ہوگا۔ بڑی سیاسی جماعتیں جو کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بارشیں برسا رہی ہیں انہیں اس سارے عمل سے باز رہنا ہوگا کہ مکمل قومی اتحاد ہی وقت کا انتہائی ضروری تقاضا ہے۔ ہمارے تمام سابقہ وزرائے خارجہ بمعہ سیکرٹریوں پر مشتمل فوراً ایک کمیٹی بنا کر ان 37ممالک کی طرف روانہ کرنا ہوگی تاکہ ہم پر خوامخواہ دہشت گردوں کی امداد کا لگایا ہوا لیبل جلد اتر سکے۔ اندرون و بیرون ملک موجود ملک دشمن عناصر اور راء وغیرہ کی پے رول پر افراد کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی بلکہ خس پاک جہاں پاک کی طرح ان سے مکمل طور پر جان چھڑانا ہی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔
کٹھ ملائیت کے علمبرداران ودیگر علماء فقہا و مفتیان کرام سے بھی پوری قوم دست بستہ گزارش کرتی ہے کہ وہ کسی صورت مزید فرقہ وارانہ اور مسالک پر مبنی اختلافی تقاریر کرنے اور کتب ورسائل کی اشاعت بند کردیں کہ پورا ملک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ہی عالمِ کفر کا احسن طریقوں سے مقابلہ کرسکے گا۔ واضح رہے کہ ہم دنیا کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ہیں اس لئے دیگر سبھی ادیان کے پیروکار وں کے نزدیک ہم ہمہ وقت ان کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں۔ اور ان کا یہ مستقل پراپیگنڈہ ہے کہ ہم موجودہ اندرونی خلفشار کی وجہ سے اپنے ایٹمی اثاثوں کا غالباً تحفظ نہیں کرسکتے۔ اس لئے بقول ان کی اندرونی ذہنیت کے ایسے ایٹمی پاکستانی اثاثوں پر دنیا کے دیگرممالک یا اقوام متحدہ کی نگرانی ہونی چاہئے ۔اغیار کی یہ بات ہمارے منہ پر ایک طمانچہ کی حیثیت رکھتی ہے۔”شرم ہم کو مگر نہیں آتی” کی طرح ہر صورت ہمیں اپنی صفوں میں انتشار ختم کرنا ہوگا ۔اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہوگا!کہ اغیار تو ہمیں کچا چبا کرکھا ڈالنے کیلئے تلے بیٹھے ہیں۔
ہم پہلے بھی اندرونی سیاسی خلفشار ، یحییٰ خاں کے ہر صورت صدر رہنے اور مغربی پاکستانی رہنما کے وزیر اعظم بن جانے کی خواہشات و لالچوں کی وجہ سے اپنا ایک قیمتی بازو(مشرقی پاکستان) تڑوا بیٹھے ہیں ۔ وقت کم اور کام بہت زیادہ ہے۔ نوجوان نسل کو لازماً فوجی تربیت دے کر پورے ملک کو “دفاعی فوج” بنا ڈالنا ہوگا تاکہ سرحدوں پر موجود بزدل ہندو بنیوں کو تو سرحدوں پر ہمہ وقت جاری جنگ و جدل کا موثر جواب دیا جاتا رہے۔ آمدہ انتخابات سے قبل سبھی متحارب سیاسی جماعتوں / گروہوں سے اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس سوموٹو کے ذریعے بلوا کر ایسے حلف نامہ پر دستخط کروائیں تاکہ وہ ذاتی الزام تراشیوں اور آپس کی گالم گلوچ سے باز رہ سکیں۔
اگر یہ اسی طرح آپس میں چوہے بلیوں کی طرح لڑتے رہے تو پھر خدائی سنت کے مطابق مسلم ملت کے افراد ضرور اللہ اکبر اور یا نبی ۖ یا نبی ۖ کی صدائیں بلند کرتے لازماً نکلیں گے جوپولنگ اسٹیشنوںپر ان کو شکست فاش دے کر ملک میں مکمل اتحاد و اتفاق کا سماں پیدا کرڈالیں گے۔ہمیں ایسی تمام تنظیموں پر بھی مکمل پابندی لگا کر ان کے وسائل اور بینکوں کی رقوم کو منجمد کرنا ہوگا جن پر مختلف ممالک کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شائبہ تک بھی کرتے ہیں ۔”خود کردہ را علاج نیست ” مگر پھر بھی ہمیں اپنی ” پیڑھی نیچے سوٹا پھیرنا ہوگا ” کہ کچھ افراد حکومتی اعلان کے بغیرہی نام نہاد جہاد پر تلے رہتے ہیں ۔علامہ اقبال کی خواہش پر مرحوم سید کی 17 سال کی عمر میں لکھی گئی کتاب ” الجہاد فی اَلاسلام “ہی نوجوان نسل کے نصاب تعلیم میں ڈال دی گئی ہوتی تو آج دہشتگردانہ سرگرمیوں اور اسلامی جہاد کا فرق واضح ہوچکا ہوتا۔وما علینا الالبلاغ