الماس بوبی کا یہ کڑوا سچ

Almas Bobby

Almas Bobby

تحریر: انجم صحرائی
مجھے الماس بوبی کی وہ بات کبھی نہیں بھولتی جو اس نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی لیکن اس سے پہلے کہ میں وہ بات آپ سے شیئر کروں۔ کیا آپ بتائیں گے کہ الماس بو بی کون ہے؟ یقینا میرے قارئین میں سے بہت سے الماس بو بی کو نہیں جانتے ہوں گے۔ میں بھی الماس بوبی سے کبھی نہیں ملا اور سچی بات میں نے کبھی خوا ہش بھی نہیں کی کہ میری کبھی کسی بھی الماس بوبی سے ملا قات ہو۔۔ وہ اس لئے کہ مجھے یہ زعم ہے کہ میں معاشرے کا ایک بڑا عزت دار اور شریف فرد ہوں اور ہمارے سماج میں کو ئی بھی شریف اور عزت دار کسی بھی الماس بو بی کو نہ جانتا ہے اور نہ ملنا چا ہتا ہے اگر کبھی ملنا بھی پڑے تو چھپ چھپا کے یا پھر رات کی تا ریکی میں۔۔بھلا خواجہ سرائوں سے بھی دوستی کرتا ہے کوئی شریف اور خاندانی بندہ۔

ہاں الماس بوبی کا تعلق بھی انسانوں کی اسی جنس سے ہے۔الماس بوبی شی میل فائونڈیشن کی صدر ہے۔ یہ الماس بوبی کی جد و جہد کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کی 62 سا لہ تا ریخ میں 2009 میں سپریم کورٹ نے خواجہ سرائوں کی مردم شما ری کا حکم دیا اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چو ہدری نے نا درا کو خواجہ سرا کیمونٹی ارکان کے لئے الگ شنا خت کے سا تھ قو می شنا ختی کا رڈ جا ری کر نے کا فیصلہ بھی سنا یا
را ئٹر کے مطا بق سپرم کو رٹ کے اس فیصلہ پر الماس بو بی کا تبصرہ کچھ یوں تھا۔۔

“It’s a major step towards giving us respect and identity in society. We are slowly getting respect in society. Now people recognize that we are also human beings.”

تو یہ ہے وہ الماس بو بی جس کی بات کی مجھے یا د آ ئی اس نے اپنے انٹر ویو میں ایک سوال کے جواب میں جو کہا وہ مجھے میری اوقات یاد دلا گیا ۔۔ اینکر کا سوال کچھ یوں تھا ۔۔”میں نے آج تک آپ کی کیمیو نٹی کے کسی بزرگ ( خوا جہ خسرا ) کو کسمپرسی کی موت مرتے نہیں دیکھا ۔ میں نے بہت کم دیکھا کہ کو ئی خسرہ دوائی نہ ملنے سے کی وجہ سے پریشان ہو ایسا کیوں نہیں دیکھنے کو ملتا ؟ سوال کے جواب میں جو الماس بو بی نے کہا وہ الفاظ سو نے سے لکھنے کے قا بل ہیں اس نے کہا کہ ہما رے گرو یا ہما ری فیملی کا کو ئی بھی فرد بیمار ہو جا ئے تو ہم سب اپنے پر اس پہ اس طرح پھیلا دیتے ہیں جیسے مر غی اپنے چوزوں پر ۔ ہم سب اس پہ سا یہ بن جا تے ہیں کہ دکھ کی دھوپ اس سے دور رہے ۔ میں تو کہتی ہوں کہ آپ لوگ ہم سے یہی سیکھ لیں ایک دوسرے کے کام آ نا اور ایک دوسرے کا سہا را بننا یہی تو دین ہے اور یہی احساس ہی تومذ ہب ہے اور شا ید اس کا نام ہی تو انسا نیت ہے ، ہما رے لوگ تو ناچ ناچ کر بھیک ما نگ ما نگ کر اپنے بنا ئے رشتوں کو نبھا تے ہیں مگر آپ کے ہاں تو ایسا نہیں ہو تا کیوں ؟ ” مجھے الماس بو بی کا یہ جواب اس وقت یاد آیا جب میری اس سے ملا قات ہو ئی ۔۔وہ میرے سا منے ایسے بیٹھی تھی جیسے سب بڑا جرم ہی اس نے کیا ہو میز پہ پڑے بڑے سے شا پر میں اس کے خا وند کی میڈ یکل رپو رٹس تھیں اس نے اس شا پر کو اتنی اھتیاط سے میز پر رکھا تھا جیسے وہ شا پر نہ ہو شیشے کا آبگینہ ہو ۔ وہ مسلسل اپنے دو نوںہا تھوں کو رگڑ رہی تھی اس کی یہ اضطرا ری حرکت اس کی بے بسی اور بے چینی کو اور نما یاں کر رہی تھی گیلی گیلی آ نکھوں سے رو ئی رو ئی سی لگتی تھی وہ مجھے ملنے خا صی دور سے اپنے چھو ٹے بھا ئی کے سا تھ صبح پا کستان کے دفتر میں آئی تھی۔

Eunuch Community

Eunuch Community

بڑے سے شاپر میں اس کے خا وند کی میڈ یکل رپو ٹس تھیں جنہیں وہ مجھے دکھا نا چا ہتی تھی۔ میں نہ تو اس سے اور نہ اس کے بھا ئی سے کبھی ملا تھا اور نہ ہی میں میر ی ان سے وا قفیت تھی ہوا یہ تھا کہ چند دن پہلے مجھے ایک نا معلوم مو با ئل نمبر سے ایک میسج مو صول ہوا جو کسی لڑکی کی جانب سے تھا ۔ اس میسج میں تحریر تھا کہ ہمارا بھا ئی دما غ کی رسولی میں مبتلا شیخ زا ہد ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کا آپر یشن ہوا ہے ۔اس کے گھر والے خا صے پر یشان ہیں انہیں آپ کی ہیلپ چا ہئے ۔ آپ اس ۔۔۔نمبر پر ان کی وا ئف سے رابطہ کرلیں ۔۔ میں نے اس میسج کو سیر یس نہیں لیا ۔ اگلے دن پھر میسج آیا کہ کیا آپ نے ان کی وائف سے را بطہ کیا ؟۔ میں نے کو ئی جواب نہیں دیا ۔ دو تین دنوں کے بعد مجھے اسی مو با ئل نمبر سے کا ل مو صول ہو ئی میں نے ریسیو کی تو بو لنے والی کو ئی بچی تھی اس کا لہجہ خا صا بھرا یا ہوا تھا ایسے جیسے بڑی مشکل سے بول رہی ہو ۔ اس نے مجھے ایک بار پھر اس خاندان کے مسا ئل با رے تو جہ دلا ئی اس کا کہنا تھا کہ سر ! یقینا آپ نا راض ہو رہے ہو ں گے مجھ پہ کہ میں آپ کو بار بار پر یشان کر رہی ہوں لیکن سر یقین کریں کہ وہ مریض جس کا شیخ زا ہد ہسپتال میں آ پر یشن ہوا ہے آج اس کے گھر میں فا قہ ہے ۔

پلیز آپ ان سے را بطہ کر کے پو چھ لیں ۔ ان کا فلاں اکیڈ یمی کے پاس گھر ہے آ پ جیسے چا ہیں تسلی کر لیں ۔ خدا سلا مت رکھے میرے دو ستوں کو میں نے گریژن پبلک سکول کے ملک مقبول ہراج کو فون کر کے یہ معا ملہ بتا یا اور ان سے ریکو سٹ کی کہ وہ ایک ماہ کی اشیا ئے خوردو نوش ان کے گھر پہچا ئیں ۔ اگلی شام مجھے پھر میسج ملا کہ شیخ زا ہد ہسپتال والوں نے مر یض کو جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ مریض کے دما غ میں کینسر ہے اسے شو کت خانم ہسپتال لے جا ئو ۔چو نکہ ان کے پاس خر چہ ہی نہیں اس لئے وہ واپس لا رہے ہیں اور یوں اللہ ڈتہ واپس گھر آگیا۔۔

اور اب اللہ ڈتہ کی وائف اس کی میڈ یکل رپو ر ٹس مجھے دکھا نے آ ئی تھی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کے لئے کیا کر سکتا ہوں ۔ میں نے اس سے پو چھا مریض کی حا لت کیسی ہے اس نے بتا یا کہ وہ جب سے آ ئے ہیں نشے میں ہیں جب بھی ان کا نشہ اتر تا ہے ہم اسے ٹیکہ لگا دیتے ہیں نشے کا ۔۔ اگر اسے ٹیکہ نہ لگا ئیں تو اس کی تکلیف کی شدت دیکھی نہیں جا تی ۔۔خدا اجر دے ہما رے ڈاکٹرز دو ستوں کو جن میں ڈاکٹر یحیی ، ڈاکٹر رشید بھٹی ، ڈاکٹر رمضان سمرا اور ڈاکٹر ظفر ملغا نی شا مل ہیں ان سے ہما را بر سوں کا نا طہ ہے ان کے با رے کسی کی کچھ بھی را ئے ہو لیکن میں جب بھی انہیں ایسے معا ملات میں گھسیٹتا ہوں وہ مجھے کبھی ما یو س نہیں کرتے میں نے ہیلپ لا ئن ود انجم صحرائی کے بیسیوں مر یضوں کا نہ صرف مفت چیک اپ کرا یا بلکہ ان کے علاج کی ذ مہ داری بھی ان پہ ڈال ڈی جو انہوں نے بھگتا ئی بھی۔۔ اور یوں ان دو ستوں نے ہمیشہ میرا حو صلہ بڑ ھا یا ۔۔ میںنے اللہ ڈتہ کے با رے بھی انہی دو ستوں سے را بطے کا فیصلہ کیا ۔ میرے کال کر نے پر ڈاکٹر یحیی نے کہا آ جا ئو میں ہسپتال میں ہی ہوں اور ایم ایس آ فس میں ایک میٹنگ میں ہوں ۔ میں انہیں لے کر ہسپتال چلا گیا ۔ میٹنگ میں ڈاکٹر رشید بھٹی کے علا وہ ایک اور نو جوان ڈاکٹر بھی مو جو د تھے انہوں نے تسلی سے ان کی بات سنی
میڈ یکل رپورٹس دیکھیں اور انہیں اپنا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر یحیی نے پو چھا کہ جب تمہیں سیخ زا ہد ہسپتال سے ڈاکٹرزنے جواب دیا تو کیا تم “انمول” گئے تھے ۔ جی گئے تھے مسز اللہ ڈتہ نے جواب دیا وہاں کی پر چی بھی یہ ہے جی اس نے شا پر سے ایک کا غذ نکال کر ڈاکٹر کو دیا۔ ڈاکٹر صا حب نے پر چی دیکھتے ہو ئے پو چھا پھر واپس کیوں آ گئے ؟۔۔ خاتون چپ رہی مگر اس کی آ نکھیں ایک بار پھر گیلی ہو گئیں ۔۔ ہا تھ ایک بار پھر ایک دوسرے کو رگڑ نے لگے۔۔۔۔ جب گھر میں بھوک ناچ رہی ہو توپھر ایسا ہی ہو تا ہے۔۔لوگ اپنی کھلی آ نکھیں گیلی اور ہا تھ ہی ملا کرتے ہیں دکھ اور بے بسی میں اس کے علا وہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے ؟

اور میرے ذہن میں الماس بو بی کا یہ کڑوا سچ کلبلا نے لگا ، ڈنک ما ر نے لگا کہ ” میں تو کہتی ہوں کہ آپ لوگ ہم سے یہی سیکھ لیں ایک دوسرے کے کام آ نا اور ایک دوسرے کا سہا را بننا یہی تو دین ہے اور یہی احساس ہی تومذ ہب ہے اور شا ید اس کا نام ہی تو انسا نیت ہے ، ہما رے لوگ تو ناچ ناچ کر بھیک ما نگ ما نگ کر اپنے بنا ئے رشتوں کو نبھا تے ہیں مگر آپ کے ہاں تو ایسا نہیں ہو تا کیوں؟۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر: انجم صحرائی
www.subhepak.com
subhepak@hotmail.com