تحریر : محمد عبداللہ میرے لیے یہ خبر اچھنبے کی تھی کہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کی طلباء تنظیم المحمدیہ اسٹوڈنٹس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ان پر پابندی عائد کردی ہے اور ان کے اثاثے منجمند کردیے ہیں قبل اس کے کہ میں اس خبر کے سیاق و سباق پر غور کرتا میرے ذہن کے گھوڑے فریقین کی تاریخ اور کردار پر دوڑنے لگے۔ امریکہ جوکہ آج پوری دنیا میں دہشت گردی اور امن کے سرٹیفیکیٹ بانٹتا پھر رہا ہے اگر اس کی تاریخ اور اقوام عالم میں اس کے کردار پر نظر دوڑائیں تو انگلیاں دانتوں تلے آجاتی ہیں کہ دنیا میں سپرپاوری کے منصب پر پہنچنے کے لیے کس طرح بلامبالغہ کروڑوں جانوں کا خون بہایا گیا۔ امریکہ کہ جس کی بنیاد ہی سیاہ فام مقامی باشندوں کے قتل اور ان کے استحصال پر ہی رکھی گئی تھی۔ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا بھرمیں اس مملکت کا تاثر محض ایک سامراجی عزائم رکھنے والی ایک دیشت گرد ریاست کی سی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو کہ جہاں امریکی خونریزی کی مثالیں موجود نہ ہوں امریکہ کے خونیں کارناموں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ سترہ سو پجھتر سے سترہ سوتیراسی تک امریکیوں نے جنگ آزادی لڑی۔ امریکہ نے پہلی سامراجی جنگ سپین کی کالونیاں حاصل کرنے کے لیے لڑی ۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ امریکہ نے براعظم سے باہر قدم رکھا اور فلپائن ،گوام سمیت کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تیرہ تک فلپائن میں ہزاروںافراد کو امریکی قبضہ مضبوط کرنے کی غرض سے قتل کر دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر امریکہ نے نہ صرف سامراجی عزائم کا اظہار کیا بلکہ ایک وحشی ریاست کے طور پر اپنی شناخت کرا لی۔چند سالوں کے بعد انیس سو پچاس میں امریکہ کورین جزیرے پر مفادات کی جنگ لڑنے کے لیے موجود تھا۔ اب کی بار کیمونسٹ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کا اعلان کیا گیا اور اپنے ورلڈ آرڈر کی مضبوطی اور اس کے اظہار کی خاطر لاکھوں کورین باشندوں کا خون بہا دیا گیا۔انیس سو ستاون میں شروع ہونیوالی ویت نام جنگ میں تین لاکھ سے زائد مقامی باشندوں کو خون کی قربانی دینا پڑی ۔انیس سو بانوے میں افریقہ کو امریکی بربریت کا سامنا کرنا پڑا اور صومالیہ کی سرزمین پر اس کے ظلم کی داستان لکھی جانے لگی۔ اسلام پسند فرح عدید کے ساتھ کشیدگی کی سزا صومالی عوام کی زندگی سے کھیل کر دی گئی۔
امریکی فوج کو تو عوامی دباو پر واپس بلا لیا گیا تاہم صومالیہ کے اسلام پسند عوام کی آزمائش ختم نہ ہوئی اور امریکی ایما پر ایتھوپیا کے ذریعے ان کا قتل عام جاری ہے۔اگر ہم صرف عراق اور افغانستان میں امریکی مظالم اور مظلوم مسلمانوں کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل عام کی بات کریں تو بلامبالغہ بیس لاکھ سے زائد انسانوںپر آتش و آہن کی بارش برسا کر ان کو ابدی نیند سلادیا گیا۔ ان کے علاوہ پس پردہ رہ کر دنیا مین قتل و غاری کا بازار گرم کروانے مین امریکہ اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا کوئی ثانی نہیں ہے اور آج بھی دنیا بھر میں بہنے والے زیادہ تر خون کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔
Al Muhammadiyya Student
دوسری طرف اگر ہم پاکستانی طلباء تنظیم المحمدیہ اسٹوڈنٹس کی بات کریں تو ان کا کردار اس بات کا شاہد ہے کہ المحمدیہ اسٹوڈنٹس پاکستان کی محب وطن اور تعلیم دوست طلبا تنظیم ہے جوکہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلباء کو فرقہ واریت اور ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکرکیرئیر کونسلنگ، فرسٹ ایڈ ورکشاپس، کاؤنٹر ٹیررازم کورسز،ریسکیو کورسز ، سٹڈی ٹپس اور ایکسیلینس ایوارڈ سمیت دیگر کئی کورسز کروارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ المحمدیہ اسٹوڈنٹس پاکستان بھر میں احیائے نظریہ پاکستان سیمینارز کا انعقادکرکے پاکستان کے طلباء کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرارہی ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات سیلاب،زلزلہ وغیرہ کے موقع پر المحمدیہ اسٹوڈنٹس کے رضاکار پاک فوج اور ریسکیو کے اداروں کے شانہ بشانہ لوگوں کو ریلیف اور ریسکیو کر رہے ہوتے ہیں، ان کے خلاف پاکستان کے کسی بھی تھانہ میں ایک بھی درخواست تک نہیں ہے ۔ سنت نبوی چہروں پر سجائے المحمدیہ اسٹوڈنٹس کے نوجواں خوش اخلاق لہجہ لیے پورے پاکستان میں اسلام اور پاکستان کے لئے نوجوان نسل کو تیار کرنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ میں جب ان کا یہ کردار دیکھتا ہوں تو اور بھی حیران ہوتا ہوں کہ آخر امریکہ کو ان سے کیا خطرہ درپیش ہے جو اس کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے المحمدیہ اسٹوڈنٹس پاکستان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ان پر پابندی عائد کردی ہے تو مجھے سمجھ آتی ہے کہ مسئلہ دراصل کچھ اور ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ امریکہ جو کہ اپنے نیو ورلڈآرڈر کی تکمیل چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر میدان میں ہر طرح کوششیں کرتا ہے۔ انہی مقاصد کی تکمیل کی خاطر وہ بظاہر تو تعلیم کے میدان میں بھی بہت سارا سرمایہ خرچ کرتا ہےاور اس کو مختلف نام دیتا ہے۔ پاکستان میں بھی یوایس ایڈ اور دیگر کئی ناموں سے امریکہ پاکستان کے تعلیمی میدان میں اپنا سرمایہ لگارہا ہے مگر درحقیقت اس کا یہ سرمایہ لگانا اور سکالرشپس دینا تعلیم دوستی نہیں بلکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل ہے جس میں پاکستان نوجوانوں کے ذہنوں کو اپنے لیے ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کی تعلیم اور ترویج و اشاعت بھی ایک بہت بڑا ایجنڈا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مختلف اوقات میں ہونے والے سپورٹس گالا،میوزیکل کنسرٹس اور دیگر پروگرام اس حقیقت کی غماضی کرتے ہیں کہ وہ ہمارے معاشرے اور بالخصوص ہمارے تعلیمی اداروں کے ماحول کو کیا رنگ دینا چاہتا ہے۔ اس کے لیے امریکہ کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور بہت سارا سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے جس میں سے بہت بڑا حصہ وہ نا م نہاد سول سوسائٹی کی این جی اوز وغیرہ کا ہوتا ہے جو بعد میں حق نمک اداکرتی نظرآتی ہیں جبکہ المحمدیہ اسٹوڈنٹس کے صالح نوجوان بغیر کسی طمع و لالچ کے امریکہ کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں آہنی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ وہ تعلیمی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے طلباء کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طلباء کو نظریہ پاکستان اور پاکستان کی اساس لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ پر بھی اکٹھا کر رہے ہیں، وہ صرف طلباء کی تعلیمی کیرئیر کونسلنگ ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ طلباء کے عقائد و اعمال کی اصلاح بھی کرتے ہیں۔
وہ طلباء کو فرسٹ ایڈ اور اسکاؤٹنگ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بننا بھی سکھارہے ہیں۔ اس کے لیے وہ خیبر سے کراچی تک یکسو ہوکر کام کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کے بعض علاقوں اور ملک کی بعض بڑی جامعات میں پاکستان کا نام لینا اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کرنا سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا تھا تو یہ المحمدیہ اسٹوڈنٹس کے نوجوان ہی تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر پاکستان کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں احیائے نظریہ پاکستان کے سیمینار منعقد کیے اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو نگرنگر لہرایا۔ یہ المحمدیہ اسٹوڈنٹس ہی ہے کہ جس کے نزدیک پنجابی،سندھی، بلوچی، پٹھان، کشمیری وغیرہ کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے ان کے نزدیک اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ اسلا م اور پاکستانیت ہے۔ اپنے انہی جرائم کی وجہ سے المحمدیہ اسٹوڈنٹس پاکستان امریکہ کے زیر عتاب ٹھہری ہے اور امریکہ نے ان کو اپنے راستے کی ایک دیوار سمجھتے ہوئے ان کی آواز کو خاموش کرانے کےلیے ان کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی عائد کی ہے تاکہ یہ اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکیں اور امریکہ کو پاکستان کے تعلیمی میدان میں کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔