تحریر: عمران احمد راجپوت موجودہ حالات کے تناظر میں ہم ایم کیوایم سے جتنا دور رہنا چاہتے ہیں موجودہ حالات ہمیں اُسکے اُتنا ہی قریب لاکھڑا کردیتے ہیں ایسے حالات و واقعات رونما ہوجاتے ہیں کہ بحیثیت کالم نگار ایشو پر لکھنا ہمارا فرض بن جاتاہے۔گذشتہ دنوں ایک خبر کے مطابق ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف گلگت بلتستان کی انسداد دہشت گردی عدالت میںزیرِ سماعت مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے الطاف حسین کو 2 بار عمر قید اور 24 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ علاوہ ازیں عدالت کی جانب سے الطاف حسین کی ملکی و غیر ملکی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ یہ سزا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو 11 جولائی 2015 ئ کوامریکہ میں منعقد کی گئی پارٹی کے سالانہ کنوینشن میں اپنے ورکروںسے خطاب کے دوران پاک فوج کے خلاف بیان بازی پرسنائی گئی۔
قارئین ویسے تو ایم کیو ایم اپنے 30 سالہ سیاسی دور میں اکثر وبیشتر بحرانوں میں گھری رہی ہے یہ اِ س پارٹی کی بدنصیبی رہی ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے اِ س جماعت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ،موقعہ پرستی اور سیاسی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب چاہا گلے لگایا اور جب چاہا ملک دشمن گردان کر ریاستی ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے ۔کراچی کی ایک اسٹوڈنٹ تنظم کے بطن سے جنم لینی والی یہ سیاسی جماعت کبھی بانیانِ پاکستان کی اولادیں کہلائی گئی تو کبھی نہرو گاندھی کے ایجنٹ قرار دی گئی۔ یہ پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ٹھہری جسے پاکستان کی تقریباً سب ہی جماعتوں نے دھتکارہ ہے ،ہم نہیں سمجھتے کہ پاکستان کی تاریخ میںکوئی سیاسی و مذہبی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ مخلصانہ اور برادرانہ تعلق جوڑنے کی خواہش مندرہی ہو۔یہ ملک کی پہلی اور واحد سیاسی جماعت تھی جس کی قیادت اور دیگر رہنما غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے جس نے ایک غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ایونوں کی زینت بنایا اور اقتدار کا مزہ چکھایا۔
MQM
جس کو لیکر ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ایم کیوایم کو اپنا حریف سمجھنے لگیںانھی جماعتوں کے منفی پروپگنڈے کی بنا پر اِن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی اقوام بھی ایم کیوایم سے نفرت کرنے لگے جو قوموں کے درمیان تصادم کی اصل وجہ بنی۔ آج اگر پورے پاکستان میں نظر ڈورائیں تو اِس وقت کوئی ایسی جماعت نہیں جو ایم کیوایم کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہو۔ایم کیوایم اپنے آغاز کے شروع دن سے تنہا تھی اورآج بھی تنہا ہی ہے اِس کی کیا وجوہات ہیںپہلے اِس پر بات کرتے ہیں۔ قارئین اِن وجوہات کی ایک بڑی وجہ توہم پہلے ہی اوپر بیان کرچکے ہیںکہ جب ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت نے غریب عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک عام شہری کو ایک وڈیرے جاگیر دار سرمایہ دار کے درمیان لا بیٹھایا اور ساتھ ملکی معاملات میں اعتراضات اُٹھانے کا اختیار بھی دے دیا گیا تو یہ بات ایک وڈیرے جاگیر دار سرمایہ دار کو کب برداشت تھی کہ جلسوں میں کرسیاں لگانے والے دریاں بچھانے والے اُن کے ساتھ بیٹھ کر ملکی معاملات میں روڑے اَٹکائیں لہذا نفرت واجب تھی۔دوسری بڑی وجہ 92 ء کے بعد سے ایم کیوایم کی سیاست میں تسلسل کا فقدان پایا جانا ہے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے ناقص سیاست اور پے درپے غلط فیصلوں کی وجہ سے وہ مستقل اپنی سیاسی ساکھ کوبری طرح متاثر کرتی آئی ہے ،اگر ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی اقدام اُٹھاتے وقت اِس کے تھینک ٹینکرز کو خود اِس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ جو اقدام وہ اُٹھانے جارہے ہیں اُس کا نتجہ اور ماخذ کیا ہے لہذا ایک جامع پلاننگ کے بناسیاسی بساط پر مہر ہ پھینکنے کا عمل آگے بڑھنے کے بجائے دوقدم پیچھے ہٹنے پر مجبورکردیتاہے جس سے پارٹی قیادت کی طرف انگلیاں اُٹھنا شروع ہوجاتی ہیںہم بارہاں اپنے کالموں میں کہتے آئے ہیں کہ خدارا ایم کیوایم کو اپنی سیاسی بصیرت کو جانچنے کی ضرورت ہے۔
اگر معاملات کو اسی طرح رکھا گیااور غلطیوں کا ازالہ نہ کیا گیا تو ناقابلِ تلافی نقصان اُٹھاناپڑسکتا ہے لیکن نتیجہ وہی دھات کے تین پات۔ ایم کیو ایم کی جانب سے سب سے بڑی سیاسی غلطی مہاجر کاز سے دستبردار ہونا ہے 92 ء کے آپریشن اور متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے کے بعد سے مہاجر کاز کا ایشو ایم کیوایم کی جانب سے پسِ پشت ڈال دیا گیاجوکہ اب صرف سیاسی میدان میں بطور سیاسی کارڈ کے استعمال کرنے تک محدود ہے جس نے ایم کیو ایم کی سیاست کو اور ایم کیو ایم کی قیادت دونوں کو شدید نقصان پہچایااور عوامی سطح پر مایوسی پھیلی۔
urdu
تمام جماعتوں کی جانب سے نفرت وبغض رکھنے کے باوجود بھی یہ جماعت اپنے 30 سالہ سیاسی کیرئیر کے تقریباًسب ادوار میں حکومت اور پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہے ۔لیکن باوجود اِس کہ پچھلی چار دہائیوں سے سندھ میں نافظ العمل کوٹہ سسٹم تک کو ختم کرانے میں ناکام رہی اور اردو بولنے والوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے پیش رفت کو ممکن نہ بناسکی آج بھی اردو بولنے والا اُسی جگہ کھڑا ہے جہاں وہ ایم کیوایم کے وجود میں آنے سے پہلے کھڑا تھا کراچی حیدر آباد اور دیگر اضلاع میں ایک مضبوط سیاسی حیثیت رکھنی والی جماعت اردو بولنے والوں کے اکثریتی علاقوں میں ایک مربوط بلدیاتی نظام تک لانے میں ناکام رہی ۔ باوجود اِس کے کہ اقتدار میں آنے والی ہرسیاسی جماعت کا سربراہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے سے پہلے نائن زیرو کا طواف کر نا ضروری سمجھتا ہے ل۔
یکن پھر بھی یہ جماعت بوجہ ناقص حکمتِ عملی اپنے مقصد کو پانے سے قاصر رہی ۔یہ وہ وجوہات ہیں جس نے ایم کیوایم کی سیاسی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا اور نہ صرف سیاسی ساکھ کومتاثر کیا بلکہ ایم کیوایم کی قیادت کی کردار کشی کا موجب بھی بنی۔لہذا ہربار کی طرح ہم پھر ایم کیوایم کی قیادت کو یہ رائے دینا چاہتے ہیں کہ پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے اپنے پرانے منشور پر آتے ہوئے مہاجر حقوق کے لئے حقیقی بنیادوں پر کوششیں تیز کرنی ہوں گی سندھ کی جغرافیائی حدوں کو برقرار رکھتے ہوئے اردو بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ ممکن بناناہوگا۔یاد رکھیں پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بچائو کیلئے اشرافیہ کا کردار موجود ہے لیکن آپ ایک متوسط طبقے کی جماعت ہیں لہذا آپ کی حفاظتی دیوار یہی عوام ہیں جن کے اعتماد کو بحال کرنا آپ کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ورنہ سائیں بھٹوجیسے عظیم عوامی لیڈر کی مثال آپ کے سامنے ہے اور جنرل ضیاء کا کردار بھی۔
Imran Ahmed Rajput
تحریر: عمران احمد راجپوت بیورو چیف حیدرآباد ماہنامہ روابط انترنیشنل