تحریر: میر افسر امان غدار وطن اور ایک فاشسٹ لسانی پارٹی ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین ،جس نے پر تشدد سیاست کی آڑ میں پاکستان کو برباد کر دیا ہے۔ اس کے دو پیاروں کے درمیا ن لڑائی شروع ہوئی ہے جو اس تحریر لکھنے تک دونوں طرف سے جاری ہے۔ اس سے پہلے بھی عدالت نے پاکستان مخالف اور را سے مدد مانگنے اور کارکنوں کو تشدد پر اُکسانے پر میڈیا پر تقریر اورتصویر پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی ہی پابندی لندن کے ایم کیو ایم کے رہنمائوں پر بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے درجنوں شہریوں نے اس کے خلاف عدالتوں میں مقدمے قائم کیے تھے۔ ٢٢ اگست کو کراچی پریس کلب میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان مردہ باد، پاکستان ایک ناسور ہے اور اپنے کارکنو ںکو تشدد پر اُکسا کر میڈیا ہائوسز پر حملے کا حکم دیا تھا اور پھر کارکنوں نے اس کے حکم پر نہ صرف اس کے نعروں کی تاہید کی بلکہ عملاً نجی ٹی کے دفاتر پر حملہ بھی کیا تھا ۔اس کی ساری الیکٹرونک کی اشیاکو توڑ دیا جو پوری دنیا نے میڈیا کی نشریات پر دیکھا۔
پھر بقول فاروق ستار الطاف حسین نے معافی بھی مانگ لی۔ معافی کے دوسرے دن امریکا میں مقیم ایم کیو ایم کے کارکنوں سے پھر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، بھارت اور اسرائیل میری مدد کرے میں پاکستان توڑنا چاہتا ہوں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذ مہ داری پوری کرتے ہوئے حرکت میں آئے اور پاکستان مخالف پروگرام میں شریک فاروق ستار ، اظہار الحق اور دوسروں کو گرفتار کیا۔ ان پر پاکستان مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے مقدمہ قائم کیا گیا۔فاروق ستار اور اظہارالحق کو تو رہا کر دیا۔ جو ابھی ضمانت پر ہیں۔ باقی ابھی بھی زیر حراست ہیں۔ اور عدالت میں پیشیاںبگھت رہے ہیں۔ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر پر قانون نافظ کرنے والے اداروں کی طرف سے ممکنہ پابندی سے بچنے کے لیے الطاف حسین سے مشاورت کر کے فاروق ستار نے فوراً رات رینجرز کی حراست میں رہنے کے بعد پریس کانفرنس کر کے ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔اس کے بعدایم کیوایم کے آئین میں تبدیلی کرکے الطاف حسین کا ویٹو پاور بھی ختم کردیا۔ ایم کیو ایم لندن کے کنوینر اور کچھ ممبران کو بھی ایم کیو ایم پاکستان سے خارج کر دیا۔ اس کے رد عمل میں لندن کی رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار، اظہار لحق اور فیصل سبزواری کو پارٹی سے نکال دیا۔ فاروق ستار کہتے ہیں ایم کیو ایم پاکستان میں سیاسی پارٹی کے طور پر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے جس کامیں سربراہ ہوں۔ جبکہ لندن ایم کیو ایم کہتی ہے کہ ایم کیو ایم ایک ہی ہے جس کے سربراہ الطاف حسین ہیں۔لندن والوں نے کراچی اور حیدر آباد میں اس بات کی چاکنگ بھی کروائی۔
Resignations
جو ابھی تک جاری ہے۔الطاف حسین نے پہلے قومی ،صوبائی اور سینیٹ کے ممبران سے کہا کہ وہ استعفے دے کر نئے سرے سے الیکشن میں جائو۔ مگر اس کے حکم پر کسی نے عمل نہیں کیا اور کہا کہ یہ ایم کیو ایم پاکستان کا مینڈیٹ ہے۔ اس کے بعد کارکنوں سے کہا کہ ان کے گھروں میں جا کر ان سے استعفے لے لو مگر کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ کراچی حیدر آباد میں دوسری طرف کچھ گمنام لوگوں جن میں سے ایک کوکراچی یونیورسٹی سے پاکستان مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے نکالا گیا تھااور دوسرا پیپلز پارٹی کا جیالا رہا ہے ایم کیو ایم لندن کی طرف سے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ایم کیو ایم صرف الطاف حسین کی ہی پارٹی ہے۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ الطاف حسین کو اپنا پرانا ایک بھی، قومی، صوبائی، سینیٹر یا لوکل گورنمنٹ کا ممبر بھی پریس کانفرنس کے لیے دستیاب نہ ہو سکا۔ سب کے سب ایم کیو ایم پاکستان جس کے سربراہ فاروق ستار ہیں کے ساتھ ہیں۔ ان حالات میں ذرائع یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ الطاف حسین کے ہاتھ سے ایم کیو ایم نکلنے کی وجہ سے کہیں یہ بیرونی مدد تو نہیں آ گئی ہے جو حالات تبدیل ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ اس قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے غدار الطاف حسین کے لیے کہا تھا کہ میں نے کبھی بھی انکل الطاف حسین کو غدار نہیں کہا وہ ایک سیاسی حقیقت ہیں ۔
جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل ٦ کے تحت کاروائی کے لیے قرارداد پاس کر چکی ہے۔ دوسرا کہیںگورنر سندھ عشرت العباد نے الطاف حسین کی مدد کرتے ہوئے سید مصطفے کمال کوپھنسانے کی چال تو نہیں چلی۔ کیونکہ اسی دوران ایک نجی ٹی وی میںپروگرام میں الطاف حسین کو اپنا خیر خواہ کہہ چکے ہیں۔ اس تناظر میںاگر ایم کیو ایم کے دھڑوں میں فرق کو سمجھا جائے تو صرف سید مصطفے کمال ہی الطاف حسین کے سخت مخالف دھڑا ہے۔فاروق ستار بھی ابھی تک الطاف حسین کے ووٹروں اورقومی، صوبائی، سینیٹروں اور لوکل گورنمنٹ کے ممبران کے دبائو کی وجہ سے الطاف حسین کے لیے اندر ہی اندر نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ صاحبو! گورنر سندھ عشرت ا لعباد اور سید مصطفے کمال سربراہ پاکستان سرزمین پارٹی ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کرپشن کے پیسے ملیشیا، لندن اور بیرون ملک بھیجے گئے ہیں ۔جادائدیں بنائی گئی ہیں تو یہ سب سچ ہے۔ دونوں نے کرپشن کر کے اپنا اور الطاف حسین کا پیٹ بھرا ہے۔
Ishrat Ul Ebad and Syed Mustafa Kamal
ان ہی کے بھیجے گئے پیسوں سے لندن کا سیکٹریٹ چلتا رہا ہے۔ صولت مرزا کا بھی عشرت العباد کے خلاف اسٹیٹمنٹ تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کوبھی قتل کر کے ایم کیو ایم کے دہشت گرد عشر ت العباد کے پاس گورنر ہائوس میں پناہ لیتے رہے ہیں۔ سیدمصطفے کمال کہتے ہیں کہ ١٢ مئی کا پروگرام گورنر ہائوس میں بنا تھا۔ سچ یہ ہے کہ عشرت العباد اور سید مصطفے کمال دونوں لطاف حسین کے پیارے رہے ہیں۔اب جب الطاف حسین مکافات عمل کے تحت قانون کی گرفت میں آیا ہے یہ سب اپنی اپنی صفائیاں عوام کے سامنے پیش کر رہے ہے۔کیا لطاف حسین پر را کا یجنٹ ہونے کا الزام اب لگا ہے۔ نہیں نہیں! جب ١٩٩٢ء میں آپریشن شروع ہوا تھا تو لیاقت آباد کے چورائے پر لگی الطاف حسین کی تصویروں پر پان کی پھیکیں ڈالی گئیں تھیں۔ عامر خان اورآفاق احمد نے کراچی میں بینرز آویزاں کیے تھے جن پر لکھا تھا کی الطاف حسین را کا ایجنٹ ہے۔ کراچی میں ٹارچر سیل دریافت ہوئے تھے۔ ایم کیو ایم کے دفتر سے جناح پور کے نقشے بر آمند ہوئے تھے جس کا اظہار اب بھی ٹاک شوز میں اس وقت کے آپریشن میں شریک ایک جرنل،ایک برگیڈیئر اور ایک میجر صاحبان کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔صاحبو! سب کو معلوم ہے کہ الطاف حسین ایک ناسور ہے۔اس نے دلیل اور قلم سے بات کرنے والی پوری مہاجر آبادی کو بدنام کر دیا ہے۔
اچھے اور پیارے اور کردار والے مہاجروں کے نام کنکٹا، لنگڑا،ٹینشن،کے ٹو،ٹنڈااور نہ جانے کون کون سے نام رکھ دیے ہیں۔اب جبکہ پورے پاکستان کی اسمبلیوں میں الطاف حسین کی پاکستان سے غداری کی قراردادیں پاس ہو چکی ہیں اس کے تحت ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن میں جائے اور الطاف حسین کے مینڈیٹ والے سارے ممبران کو ڈی سیٹ کروا کر نئے مینڈیٹ جو پاکستان زندہ باد کا مینڈیٹ ہو کے تحت مہاجروں کو اسمبلی میں لایا جائے۔ سیاست کرنا ان کا حق ہے لیکن الطاف حسین والی پاکستان مردہ باد ملک دشمن سیاست کا حق کسی کو بھی نہیں۔ سارے جراہم پیشہ ایم کیو ایم کے افراد کی تحقیقات ہونے چاہیے اور اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کی سزا بگھتے اور اس کے بعد صاف ستھرا ہو کرسیاست کرے۔ چاہے وہ عشرت العباد ہو، مصطفے کمال ہو،اظہار الحق اور ہو یا وسیم اختر ہو یا کوئی اور ہو۔الطاف حسین کے دو پیاروں کی لڑائی سے عوام کو کوئی واسطہ نہیں۔ پوری کرنے کے لیے حرکت میں ئے پاکستان توڑنے کی اپیل کی دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہے۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان