تحریر: سید انور محمود جیسے جیسے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں گھیرا تنگ ہورہا ہے ویسے ویسے الطاف حسین بوکھلاٹ کا شکار ہورہے ہیں۔ 1992ء میں انہوں نے برطانیہ کو اپنا نیا وطن چنا اور لندن جاکر رہنے لگے، 2002ء میں برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے بعد الطاف حسین اب ایک برطانوی شہری ہیں۔ برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کیخلاف 2010ء میں اس وقت تحقیقات شروع کیں جب ایم کیو ایم کے ایک سینئر رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010ء کوشمالی لندن میں اُنکی رہائش گاہ کے قریب چاقو سے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں متحدہ کے دفتر اور اُسکے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی گئی۔
فروری 2015ء میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 257 افراد کی ہلاکت کاواقعہ حادثہ نہیں بلکہ قتل تھا۔ رینجرز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری میں آگ بھتہ کے معاملے پر باقاعدہ منصوبہ بندی سےلگائی گئی جس میں ایک سیاسی جماعت (ایم کیو ایم) ملوث ہے۔ اس سال اپریل کے آخر میں ایس ایس پی راؤ انوار نے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے متحدہ کے گرفتار کارکنوں کے بیانات کی بنیاد پر بھارت سے رابطوں کے الزامات لگائے۔ جولائی 2015ء میں بی بی سی نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں الزام عائدکیا ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم متحدہ کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں رپورٹ میں مقتدر پاکستانی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ متحدہ کے دو سینئر رہنماؤں نے برطانوی حکام کے روبرو بھارت سے مالی معاونت حاصل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ جبکہ متحدہ نے اس الزام کو رد کردیا۔
گیارہ مارچ کی صبح ایم کیوایم کے مرکز پررینجرز نے چھاپا مارا اور کافی لوگوں کو گرفتار کیا، گرفتار ہونے والوں میں ایسے لو گ بھی موجود تھے جن کو عدالت سے سزائے موت کی سزا مل چکی تھی۔ ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن شروع ہوا جس میں اُس کے کارکن پھانسی پانے والے فیصل موٹا اور عمیر صدیقی کے علاوہ اور بھی مجرم پکڑئے گے۔ الطاف حسین کے خلاف ایک مقدمہ سول لائنز تھانے میں رینجرز ترجمان کرنل طاہر محمود کی مدعیت میں درج کیا گیا، اسلیے کہ الطاف حسین نے نجی چینل جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں نائن زیرو آپریشن میں شریک رینجرز اہلکاروں کے حوالے سے بظاہر کہا تھا کہ “رینجرز اہلکار ہیں نہیں تھے، وہ تھے ہو جائیں گے”۔جمرات 30 اپریل کی شب ایم کیو ایم کے مرکز ناین زیرو پر الطاف حسین نے ریڈ لاین کو عبور کرتے اپنی تقریر میں حکومت، آئی ایس آئی، فوج اور بیوروکریٹس کو سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا اور پاکستانی فوج کو مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اپنے اندر موجود مجرموں کو کیوں نہیں پکڑتی۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے بہت سے سابقہ افسر مجرمانہ کاررائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پاکستانی فوج اور اسکی قیادت کے خلاف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر کو بہودہ اور ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا۔
Ranger
بارہ جولائی کو نائین زیرو پر تقریر کرتے ہوئے الطاف حسین نے کارکنان کے ہنگامی اجلاس سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے دوسری باتوں کے علاوہ کہا کہ “اس وقت ڈی جی رینجرز وائسرائے کا کردار ادا کررہے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف کے ذاتی ملازم بن کر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کررہے ہیں۔ الطاف حسین نے کہاکہ فوج اور پیراملٹری فورسز ، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ، ملک وقوم سے وفاداری اور انسانوں کی جان ومال کے تحفظ کا حلف لیتی ہیں لیکن پیراملٹری رینجرز کی جانب سے بے گناہ شہریوں کوگرفتارکرکے بہیمانہ تشددکا نشانہ بنانا اورانہیں قتل کرکے مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکنے کاعمل اپنے حلف کو توڑ مروڑ کر سڑک پرپھینکنے کے مترادف ہے ۔ ڈی جی رینجرز بلال اکبرباربار اپنے حلف کی خلاف ورزی کرچکے ہیں اور اب وہ محض دکھاوے کے میجر جنرل ہیں” ۔ اس تقریر کے بعد الطاف حسین کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مقدمات درج کیے گئے، مقدمات کی تعداد 150 سے زیادہ ہوگئی ہے۔
یکم اگست کو امریکا کے شہر ڈیلاس میں ایم کیوایم امریکا کے سالانہ کنونشن کے موقع پر ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین یا تو ہوش میں نہیں تھے یا پھروہ اپنے خلاف برطانوی حکومت کی کاروا ئی سے خوفزدہ ہوکراپنا ذہنی توازن کھوبیٹھے ہیں ، لہذا ڈیلاس میں انہوں نے نہ صرف پاک فوج کے خلاف بلکہ تمام مسلم فوج کے خلاف بھی زہر اگلا، الطاف حسین نے کہا کہ “گذشتہ دو برسوں کے دوران ہزاروں بے گناہ کارکنوں کو گرفتارکیا گیا، سیکڑوں کو تشدد کا نشانہ بناکر معذور اور درجنوں کو گرفتارکرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا، اگر بھارت میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو پاکستان میں مہاجروں کا قتل نہ ہوتا، ایم کیو ایم کے کارکن اقوام متحدہ اور نیٹو کے ہیڈکوارٹر پر جاکر انہیں مہاجروں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کریں اور ان سے کہیں کہ وہ کراچی میں اقوام متحدہ یا نیٹوکی فوج بھیجیں تاکہ وہ وہاں معلوم کریں کہ کس نے قتل عام کیا اورکون کون اس کا ذمہ دارتھا، الطاف حسین نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر براہ راست قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ، اور کہا مسلح افواج کو سلام اور سیلوٹ پیش کرکے بڑی غلطی کی۔ گذشتہ دنوں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پرمیرے خلاف ملک بھر کے پولیس اسٹیشنوں میں راتوں رات ڈیڑھ سو سے زائد غداری کے مقدمات قائم کیے گئے، اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اکیلاالطاف حسین پانچ لاکھ فوج سے ڈرتا ہے یا پانچ لاکھ فوج الطاف حسین سے ڈرتی ہے۔
الطاف حسین نے کہاکہ پاکستان میں مسلح افواج کو مقدس سمجھاجاتا ہے لیکن میں مسلح افواج کو سلام اور سیلوٹ پیش کرکے بڑی غلطی کرچکا ہوں، اللہ مجھے اس پر معاف فرمائے کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں سکھوں، ہندوؤں اورعیسائیوں نے کعبۃ اللہ پر گولیاں چلانے سے انکارکردیا تھا لیکن ان مسلمان فوجیوں نے انگریزوں کے حکم پر خانہ کعبہ پر گولیاں چلائیں۔میں ایسی فوج کو مقدس نہیں سمجھتا جو خانہ کعبہ پر گولیاں چلاتی ہے ، جواپنے ہم مذہب اور کلمہ گو بنگالی مسلمانوں کا قتل عام کرتی ہے، ایک لاکھ مسلم بنگالی خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر حاملہ کردیتی ہے، جوجنرل یحییٰ خان کے زمانے میں مہاجربیوروکریٹس کو ایک جھٹکے میں ملازمتوں سے برطرف کردیتی ہے،قائداعظم محمد علی جناح کو سلو پوائزن دیکرماردیتی ہے، محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کردیتی ہے، جنرل ایوب خان کے دورمیں ایک ہزار مہاجرسول بیوروکریٹس کو ملازمتوں سے نکال دیتی ہے۔
MQM
اسی تقریر میں الطاف حسین نے سینئر مہاجر بزرگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ حق پرستی کی 31 سالہ جدوجہد کے دوران ایم کیوایم کے 25 ہزار سے زائد کارکنان وہمدرد فوج ، رینجرز اور پولیس کے ہاتھوں قتل کیے جاچکے ہیں، مہاجروں کاسیاسی، تعلیمی اور معاشی قتل عام کرنے کیلئے 1973ء میں ذوالفقارعلی بھٹو نے فوج کے ساتھ مل کر صرف صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا جو آج تک نافذہے ۔انہوں نے کہاکہ آج جس کا دل چاہتا ہے بانیان پاکستان کی اولادوں کو بھوکا ننگا قراردے دیتاہے اورانہیں مغلظات بکتا ہے اگر مہاجروں کو گالی دینے والے ایک دو افراد کی زبانوں کو لگام دی جاتی تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ وہ بانیان پاکستان کی اولادوں کے خلاف بکواس کرتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اے مہاجروں کے ہمدرد الطاف حسین آپنے گذشتہ 31 سال میں مہاجروں کو دیا کیا ہے؟ 25 ہزار انسانوں کی لاشیں، شہرقائد کراچی گذشتہ کئی عشروں سے بدامنی، لسانی، فرقہ پرستی اور نسلی فسادات کے علاوہ دہشتگردی ،قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار اور بھتہ خوری کی زد میں ہے اور اس میں آپ کا بھی کافی حصہ ہے، بوری بند لاشوں کے تو آپ اور آپ کی جماعت چیمپین ہیں۔ وہ کونسا جرم ہے جس میں آپکی جماعت کے لوگ شامل نہیں، جس بھٹو کو آپ کوس رہے ہیں، اُسی کی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ 1988ء کے بعد سے آپ ہر حکومت میں پارٹنر رہے ہیں، نواز شریف کے بھی حکومتی اتحادی رہے ہیں، مگر آپ نے مہاجروں کےلیے کیا کیا؟ کچھ نہیں صرف پورئے پاکستان میں مہاجروں اور خاصکر سندھ میں اردو بولنے والوں کو بدنام کیا ، ایک زمانے میں کراچی کے لوگوں کی پہچان پڑھے لکھے لوگوں کی حیثیت سے ہوتی تھی مگر اب اُنہیں بھتہ خور اور قاتل سمجھا جاتا ہے، آپ جاگیر داروں اور دڈیروں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ عوام پر ظلم کرتے ہیں اور عوام اُن سے خوف زدہ رہتے ہیں، آپ بھی تو کراچی کے ڈان ہیں، کراچی کے عام لوگوں کو آپسے اور آپکی جماعت سے صرف نقصان پہنچا ہے۔
MQM Coordination Committee
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں تمام ممبر پڑھے لکھے ہیں ، کیا وہ الطاف حسین کے بیانات کی جو صفایاں د ئے رہے ہوتے ہیں اُس سے اُن کا ضمیر مجروع نہیں ہوتا، الطاف حسین ایک بیمار انسان ہیں اوریہ بات انہوں نےخود شاہ زیب خانزادہ کے ایک پروگرام کہی کہ میں اپنے اوپر کنٹرول نہیں کرپاتا اور الٹا سیدھا بول دیتا ہوں مگر میں بعد میں معافی مانگ لیتا ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین نے 30 اپریل سے یکم اگست تک جو تقاریر کیں ہیں جس میں پاک ا فواج کے خلاف بہت کچھ کہا ہے اور بھارت ماتا کو بار بار یاد کیا ، (کیا ایم کیو ایم کی حمایت کرنے والے مہاجر الطاف حسین کے ان خیالات کی حمایت کرتے ہیں؟ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ یہ ایک بھی مہاجر کی آواز نہیں ہے)، کیا الطاف حسین پھر اپنی اشتعال انگیزی پرمعافی مانگیں گے، کبھی کبھی کچھ کہا ہوا ناقابل معافی ہوتا ہے۔
یقینا وزیر داخلہ کے اس بیان سے ہر پاکستانی اور خاصکر مہاجر متفق ہونگے کہ”عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس نے الطاف حسین کو اشتعال انگیزی پر اکسایاہے وجوہات کچھ بھی سہی الطاف حسین کے الفاظ وطن دشمنی کی عکاسی کرتے ہیں کوئی محب وطن شخص کبھی وطن دشمنی پر نہیں اترتا چاہے اس کے خلاف کتنے ہی مقدمات کیوں نہ ہوں یا وہ کتنے ہی مظالم کا شکار کیوں نہ ہو”۔ الطاف حسین جو 23 سال قبل پاکستان سے چلے گے تھےاور 13 سال سے برطانوی شہری ہیں اور اس بات کی بھی قطعی امید نہیں کہ وہ اب کبھی پاکستان آینگے لہذاانہیں چاہیے کہ وہ ایم کیو ایم کی قیادت کسی اور رہنما کے حوالے کردیں ، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ اب فیصلہ کرئے ، الطاف حسین کوآرام کرنے کا موقعہ د ئے اور ایم کیو ایم کےلیے ایک متعدل رہنما کا انتخاب کریں تاکہ خود اُنہیں اور کراچی کےلوگوں کو سکھ سے جینے کا موقعہ ملے۔